قیامِ پاکستان کے وقت معاشی مسائل ضرور گھمبیر تھے مگر قیادت کی دیانتداری اور قابلیت پر عوام کو مکمل بھروسہ تھا کہ وہ اس ابتدای معاشی گرداب سے نکال لے جائیں گے اور ایسا ہی ہوا۔ 75 برس گزرنے کے بعد پاکستان کو سخت معاشی مشکلات کا سامنا ہے، ایک کے بعد ایک نیا مسئلہ کھڑا ہورہا ہے، ابھی حکومت توانائی کی قلت اور درآمدی بلز کے بڑھتے بوجھ کو قابو پانے کی کوشش کر ہی رہی تھی کہ سندھ، بلوچستان اور جنوبی پنجاب کے اضلاع میں شدید بارش نے تباہی مچا دی، خصوصاً بلوچستان اور سندھ کا 80 فیصد رقبہ سیلاب میں ڈوب گیا جس سے زرعی پیداوار کو بڑا نقصان پہنچا اور دیہی و شہری آبادی کے کچے پکے مکانات ملبہ کا ڈھیر بن گئے، اس نئی افتاد نے پاکستانی معیشت کے مزید کس بل نکال دیئے، حکومت اس سے نمٹنے کی منصوبہ بندی کررہی تھی کہ اپوزیشن کی تحریک چل پڑی، سوشل میڈیا پر منفی پروپیگنڈے نے سرمایہ کاروں اور عوام کو غیریقینی کی کیفیت میں ڈال دیا، روپے کی گرتی اور ڈالر کی بڑھتی قدر سے تجارتی برادری میں مزید مایوسی بڑھی، حکومت کے لئے گردشی قرضہ، قرضوں کی قسط کی ادائیگی ساتھ ہی آئی ایم ایف سے گزشتہ حکومت کا معاہدہ وہ ہڈی بن گیا جو نہ نگلا جاسکے نہ ہی اُگلا جاسکے۔ آئندہ تین ماہ میں قرضوں کی قسط اور سود کی مد میں 8.3 ارب ڈالر کی ادائیگی کا ایک پہاڑ بھی سر کرنا ہے، گردشی قرضہ 2.5 ٹریلین روپے ہوچکا ہے، پیٹرولیم مصنوعات و گیس کا درآمدی بلز 27 ارب ڈالر تک جا پہنچا ہے، عالمی مارکیٹ میں گیس کی بڑھتی قیمت پاکستان جیسی کمزور معیشت کے حامل ملک کے لئے ایک چیلنج بن چکی ہے، اوپر سے گندم، دالوں کی درآمد نے معیشت کو مزید ہلکان کردیا ہے، ایک زرعی ملک کا خوراک میں خودکفیل نہ ہونا حکمرانوں کی نااہلی کی دلیل ہے، گزشتہ چار سال میں تقریباً 40 ارب ڈالر کی اجناس کی درآمد المیہ ہے۔ حالیہ سیلاب سے گندم کی بوائی کا ہدف تقریباً 10 فیصد کم رہا ہے، مستقبل میں بھی گندم کی درآمد کا چیلنج درپیش ہوسکتا ہے، اگر بمپر پیداوار ہوئی تو کچھ بہتری ہوسکتی ہے، حکومت کو بیک وقت زراعت کے ساتھ صنعت پر بھی بھرپور توجہ اور ریلیف دینا ہوگا کیونکہ صنعتوں کو گیس کی عدم فراہمی سے برآمدی اہداف متاثر ہوں گے، گیس کا بحران اتنا شدید ہے کہ گھریلو صارفین کو بھی دینے کے لئے گیس نہیں ہے، گیس کا بحران تو ہمارا خود کا پیدا کردہ ہے، مشرف صاحب کے دور میں CNG کے ذریعے تقریباً آئندہ پچاس برس کی گیس گاڑیوں میں پھونک دی گئی، نئے ذخائر کی دریافت اُس شرح سے نہ ہونا بھی ان اداروں پر سوالیہ نشان ہے، جن کے افسران و عملہ مراعات و تنخواہیں تو وصول کررہے ہیں مگر کارکردگی صفر ہے، سوئی سدرن و نادرن کے تقریباً 23 سے 24 ہزار ملازمین اور بڑے افسران کی بھاری تنخواہوں اور مراعات کا کیا جواز ہے، جب ان کے پاس پراڈکٹ ہی نہیں ہے، سوئی گیس کا محکمہ ایک اور اسٹیل مل بننے جارہا ہے، کمزور معیشت پر ایسے درجنوں ادارے بوجھ بنے ہوئے ہیں، اب تو پی آئی اے کا اتنا ذکر نہیں ہوتا لیکن اس کا مالی خسارہ بھی بڑھتا ہی جارہا ہے، اس حکومت کے پہلے وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل ابتدا میں بڑے بڑے دعوے کررہے تھے پھر اسحاق ڈار آگئے، ان کا دعویٰ تھا کہ ڈالر کو 190 روپے پر لے جائیں گے اور اس کام میں کوئی مشکل نہیں ہوگی لیکن جب نتائج کا وقت آیا تو وہی راگ کے پچھلوں نے ایسی بارودی سرنگیں بچھائیں ہیں کہ ہر طرف تباہی کو کیسے ٹھیک کریں، کیا منصب سنبھالنے سے قبل انہیں سنگینی کا ادراک نہیں تھا، اوپر سے وزیراعظم کا بیان کہ 70 سالوں کے مسائل 8 ماہ میں حل نہیں کرسکتے، خود اعترافِ جرم ہے کیونکہ ان 70 سالوں میں آپ کی جماعت تقریباً 16 برس اقتدار میں رہی ہے، اصل مسئلہ یہ ہے کہ حکومت نے اپنی سمت کا تعین ہی نہیں کیا اور سیاسی بے یقینی نے چلتی پر تیل کا کام کیا، اسحاق ڈار، مفتاح اسماعیل کو ہٹا کر آئے مگر ان کی کارکردگی بدتر ہے، حکومت کو معیشت کی بحالی کے لئے روڈمیپ تشکیل دینا چاہئے تھا، چین، سعودی عرب، روس کے پے درپے دوروں سے بھی وہ سب حاصل نہیں ہوسکا جس کی اُمید لگائی جارہی تھی، اب بھی سعودی عرب اور چین سے 6 ارب ڈالر ملنے کی اُمید لگائی گئی ہے جس سے ڈیفالٹ ہونے کے خطرے کو ٹالا جاسکے گا لیکن امداد، قرض پر کب تک ملک چلایا جائے گا، ابھی معاشی طوفان سے نکل بھی گئے تو یہ عارضی ہوگا کیونکہ سمت کا تعین نہیں ہے، سب سے پہلے تو زراعت کے اہداف مقرر کرنا چاہئے، پھر صنعت، سروسز اور تعمیرات کے شعبوں کے لئے ایک پلان بننا چاہئے، اوورسیز پاکستانیوں کے بھیجے گئے زرمبادلہ کو رئیل اسٹیٹ کی نذر ہونے سے بچانے کی حکمت عملی بنانا چاہئے، اُس سرمائے کو جدید اور نئی صنعتوں کا جال بچھانے کے لئے استعمال کرنا چاہئے، حکومت بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے 35 سے 38 ارب ڈالر کے سرمائے کے لئے کوئی پالیسی بنا لے تو اس کے ثمرات آئندہ سالوں میں نظر آئیں گے، بدقسمتی سے وہ سرمایہ ریگستان کو گلزار بنانے کے بجائے ہرے بھرے کھیتوں کی زرعی زمین کو کنکریٹ کا جنگل بنانے میں لگ رہا ہے، تعمیرات کے شعبے کے لئے کوئی حدبندی کرنا ہوگی ورنہ ابھی تو ایک سال میں اجناس کا درآمدی بل 10 ارب ڈالر تک پہنچا ہے، صورتِ حال یہی رہی تو یہ دوگنا بھی ہوسکتا ہے، معاشی بحران کے ساتھ عوام اور سرمایہ کاروں کے اعتماد کو بحال کرنا ایک بڑا چیلنج ہے، اس کے ساتھ دہشت گردی کا عفریت پھر توانا ہورہا ہے، دسمبر کے آخری دس دنوں میں درجن سے زائد سیکیورٹی اہلکاروں کی شہادت المیہ ہے، اس کے سدباب کے لئے سخت اقدامات کرنا ہوں گے۔ دہشت گردی کے معاملے میں قومی سلامتی کمیٹی اجلاس نے واضح روڈمیپ بتا دیا ہے کہ دہشت گردوں کو پوری قوت سے کچل دیا جائے گا، پاکستان کو للکارنے والوں کا سر کچلنے کا عزم کیا گیا، پوری قوم دہشت گردوں کے خلاف بیانیے پر متفق ہے، عوام کے جان و مال کے تحفظ پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا، دہشت گردوں کو دوبارہ فعال ہونے سے روکنے کے لئے ہر اقدام اٹھایا جائے گا، اس حوالے سے وزارتِ خارجہ میں غیرملکی سفیروں کو بھی بریفنگ دی گئی، سفراء کی جانب سے جو سوالات کئے گئے اس پر تسلی بخش جواب سے انہیں مطمئن کیا گیا۔ اجلاس میں سیکیورٹی کے ساتھ معاشی بحران پر بھی غور کیا گیا۔ وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے بریفنگ دی کیونکہ قومی سلامتی میں معاشی معاملات کی بہت اہمیت ہوتی ہے، بڑھتے قرضے اور تباہ معیشت ملکی سلامتی کے لئے انتہائی خطرناک ہے، توانائی کے بحران کا بھی ذکر ہوا، ملک کی سیاسی قیادت کو بڑی گاڑیوں سے اترنا ہوگا، اعلیٰ عہدوں پر موجود شخصیات کو شاہانہ انداز ترک کرنا ہوگا، اعلیٰ افسران اور نوکر شاہی کو اللے تللے سے ہاتھ اٹھانا ہوگا، ادھار کا پیٹرول لے کر بڑی گاڑیوں میں جو بے دریغ استعمال ہے اُسے چھوڑنا ہوگا، غریب عوام جو پیٹرول 215 روپے کا خرید رہے ہیں وہ انہیں مفت دستیاب ہے، یہ ناانصافی اور ظلم کی انتہا ہے، اعلیٰ شخصیات کی گاڑیاں اور ان کے پروٹوکول کے قافلے ہیں اور معاشی مشکلات کا رونا رویا جارہا ہے، ایک طرف عوام دو وقت کی روٹی کے لئے پریشان ہیں دوسری جانب اشرافیہ ہے جسے کوئی تکلیف نہیں، عوام چولہا جلانے کی گیس سے محروم ہیں اور مراعات یافتہ طبقہ بجلی، گیس اور تمام ضروریاتِ زندگی کے ساتھ مفت میں انجوائے کررہا ہے اور اپنا سرمایہ ڈالر میں بدل کر محفوظ رکھتا ہے یا پھر بیرون ملک منتقل کردیتا ہے، دبئی اور دیگر ملکوں میں جائیدادیں بناتا ہے، اگر ایف بی آر سے اعدادوشمار لے کر ایف آئی اے اور دیگر حساس اداروں سے کارروائی کروائی جائے تو پانچ سے چھ ارب ڈالر ان کے گھروں سے نکل آئیں گے۔ اس وقت زرمبادلہ کا جو سنگین بحران ہے وہ اس بازیابی سے دور کیا جاسکا ہے مگر یہ کام کیسے ہو کیونکہ جنہوں نے فیصلہ کرنا ہے اور جن کو عملدرآمد کرنا ہے وہ سب اس میں شامل ہیں، جو معاشی صورتِ حال درپیش ہے اس سے نمٹنے کے لئے دوا کے ساتھ دُعا کی ضرورت ہے، نئے سال کی آمد پاکستانی عوام کے لئے باعثِ مسرت ہو، حکومت کمرتوڑ ہی نہیں زندہ درگور کرنے والی مہنگائی پر قابو پانے کے لئے انقلابی اقدامات کرے تاکہ مایوسی کا شکار عوام سکھ کا سانا لے سکیں۔ حکومت کو دوست ممالک سے مالی مدد حاصل کرنے کی کوششوں کو تیز کرنا چاہئے تاکہ نئے سال کی ابتدا ہی سے عوام کو توانائی، خوراک کے شعبے میں فوری ریلیف مل سکے، خود حکومت کو اپنے اخراجات خصوصاً غیرممالک میں مقیم سفارتی عملے کی عیاشیوں کو ختم کرنا ہوگا کیونکہ انہیں ڈالر میں ہر ماہ ادائیگی کرنا ہوتی ہے جو زرمبادلہ کے ذخائر پر ایک بڑا بوجھ ہے، حکومت کو ان سب معاملات کو ازسرنو دیکھنا ہوگا تب معاشی مسائل کی جڑ تک پہنچا جاسکے گا، اس کے ساتھ پی آئی اے، پاکستان اسٹیل ملز، پاکستان ریلوے، واپڈا اور دیگر سفید ہاتھی نما اداروں کے خسارے سے متعلق فیصلہ کن کارروائی کرنا ہوگی، کب تک ان کے غیرپیداواری اخراجات کا بوجھ عوام پر ڈالا جائے گا، ان اداروں کے افسران کے بھاری تنخواہوں اور مراعات کو ختم نہیں تو کم کرنا ہوگا، عوام کو اب بھی سیاسی قیادت سے اُمید ہے کہ وہ معاشی بھنور سے عوام کو نکال لیں گے، پاکستان میں بڑی صلاحیت ہے صرف ایک سال زراعت پر توجہ دے دی جائے تو خوراک میں خودکفیل ہوجائیں گے، صنعتکاروں کو تین سے پانچ سال تک کا ایک ہدف دے دیا جائے تو ان میں اتنی صلاحیت ہے کہ وہ ان اہداف کو حاصل کرلیں گے، بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو دیانت داری کا یقین دلایا جائے تو وہ زرمبادلہ کی بارش کردیں گے، توانائی کے شعبوں خصوصاً پیٹرول و گیس میں اگر خلوصِ نیت سے کام کیا جائے تو نئے ذخائر کی دریافت معجزانہ طور پر ہوسکتی ہے، خیبرپختونخوا، بلوچستان کے چند اضلاع جبکہ پورا سندھ گیس و تیل کے بڑے ذخائر رکھتا ہے، صرف کام اور دیانت داری شرط ہے، اس مشکل سے نکلا جاسکتا ہے، دسمبر کے آخری ہفتہ میں ڈیرہ اسماعیل خان میں نئے ذخائر ملنے سے یہ اُمید بڑھ جاتی ہے کہ پاکستان قدرتی دولت سے مالامال ہے، نیتوں کا درست ہونا شرط ہے، بقول شاعر مشرق ؎
نہیں ہے نااُمید اقبالؔ اپنی کشت ِویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی