ثناء غوری
میرے دیس میں معاشی مسائل جس تیزی سے بڑھ رہے ہیں وہاں ایک فرد کمائے اور دس لوگ کھائیں یہ ممکن نہیں رہا۔ لہٰذا فکرِ معاش کے لئے خواتین کا گھر سے باہر نکلنا ایک عام بات ہے۔ ہمارا معاشرہ یہ بات جانتا ہے کہ عورت کا نوکری کرنا اب ضروری ہوگیا ہے لیکن اب بھی اس بات کو دل سے تسلیم نہیں کیا جاتا۔ نوکری کرنے والی خواتین کو اکثر شب و روز نازیبا رویوں کو سامنا رہتا ہے۔ کبھی ان کی مجبوری کا فائدہ اٹھا کر ان کے وقار کو مجروح کرنے کے لئے اس قسم کی پیشکش کی جاتی ہے کہ ان کی انا کرچی کرچی ہوجاتی ہے۔ لیکن نوکری کی ضرورت چپ سادھنے پر مجبور کر دیتی ہے، ہراساں کرنے کی مد میں اگر کوئی عورت آواز اْٹھا بھی لے تو معاشرہ اسے ہی قصور وار ٹھہرا کر دیوار سے لگانے کا پورا سامان رکھتا ہے۔ ایسا نہیں کہ یہ رویہ کسی چھوٹی سطح پر کام کرنے والی عورت کو بھگتنے پڑتے ہیں یا اس کے پیچھے تعلیم کی کمی کارفرما ہے، کام کرنے کی جگہ پر ہراساں کرنے کے واقعات وہاں بھی اتنے ہی ہیں جہاں اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ اپنے ناموں کے ساتھ بڑی بڑی ڈگریوں کے لیبل لگا کر خود ساختہ ذہنی بالغ ہونے کی تصویر بنے بیٹھے ہیں۔ سطحی زبان کا ایک لفظ ٹھرک کانوں میں پڑتے ہی ہمارے لبوں پر مسکراہٹ آجاتی ہے لیکن معاشرے میں موجود بھڑیے اپنی چند لمحوں کی تسکین کے لئے جب ایک عورت کو اس گھٹیا لفظ کے رویے کا نشانہ بناتے ہیں تو روح کانپ جاتی ہے۔ ایک عورت جسے اپنا گھر چلانا ہے، بچے پالنے ہیں، وہ مجبوریوں کے دلدل میں اتنی بُری طرح پھنسی ہوتی ہے کہ حرفِ شکایت اپنی زبان پر لانا اس کے لئے کسی ناکردہ جرم کی سزا کے مترادف ہوتا ہے اور خاموشی کی صورت میں یہ بھڑیے اپنے غلیظ ارادوں کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لئے آخری حد تک کوشش جاری رکھتے ہیں۔
چادر کے تقدس کا نعرہ لگانا ہو تو ہر کوئی اپنے گھر کی فکر کرتے ہوئے اس نعرے کی تائید میں صدا بلند کرتا ہے اور سب سے آگے نظر آتا ہے لیکن گھر سے باہر کی عورت کی چادر کھنچتے ہوئے سارے نعرے فقط ایک گونج بن جاتے ہیں جس کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔ ہمارا معاشرہ ایسے ہی پھٹ پڑا ہے جیسے پریشر کوکر میں زائد ہوا بھر گئی ہو لیکن افسوس ہم اب بھی اس کے نتیجے میں جھلس جانے والے جسموں کو دیکھنے سے قاصر ہیں۔ اخلاقی زوال کی سنگین حد تک ہم جا پہنچے ہیں لیکن پھر بھی سب اچھا ہے کہ زعم میں مبتلا ہو کر نہایت خوش اسلوبی سے خود فریبی میں جئے جاتے ہیں۔
آپ میں سے اکثر یہ تحریر پڑھ کر شاید ناگواری کے احساس میں مبتلا ہوجائیں، لیکن یقین جانیئے ایسا ہی ہے۔ ہم ان بُرائیوں کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں اور نہ ہی ان پر بات کرنا چاہتے ہیں جو ہمارے آس پاس بکھری نظر آتی ہیں۔ بہت آرام سے اپنے دامن کو بچا کر نکل جاتے ہیں یہ سوچ کر کہ ہم تو ایسے نہیں ہیں ناں تو ہمیں کیا فرق پڑتا ہے، اگر کوئی ایسا ہے تو اللہ اسے ہدایت دے لیکن ایسا نہیں ہے، معاشرے کی بُرائیوں سے آنکھیں چْرا کر آگے نکل جانا دراصل اس سے بڑی بُرائی ہے جو بُرائی آپ ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔
عورت جس روپ میں ہو عزت کئے جانے کے قابل ہوتی ہے۔ وہی عورت جس کے بطن سے ہمیں پیدا کیا گیا، وہی عورت جو اپنے سینے سے رزق اپنے بچوں کے منہ میں ڈالتی ہے۔ وہی عورت جو بولنا سکھاتی ہے۔ ماں! رب کی رضا سے رب کا زمین پر اتارا جانے والا ایک وہ نمائندہ جسے شاید رب نے اپنے ہونے کا یقین دلانے کے لئے زمین پر پیدا کیا کہ دیکھو تمہارا رب اتنا رحیم و کریم اور اتنا مہربان ہے جیسے تمہاری ماں۔ رب کی محبت کو ماں کی محبت سے تشبیہہ دی گئی اور لوگوں کو سمجھایا گیا کہ تمہارا رب تم سے ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرتا ہے۔
اسی عورت کو شیطان کا آلہ کار سمجھا گیا، اسے بے عزت کیا گیا، زمانہ جاہلیت سے لے کر آج تک بُرائی کا منبع ہی تصور کیا گیا۔ عورت کی عزت کا دعویٰ کرنے والے لوگوں کی زبان سے جب بھی بُرا کلمہ نکلا تو وہ بُرا لفظ عورت کو گالی دینے سے شروع ہوا۔ ہمارے اردگرد ہی دیکھ لیجئے جتنی گالیاں ہیں وہ عورت کے وجود سے وابستہ ہیں اور اتنی عام ہوچکی ہیں کہ حیرت اور افسوس کی کیفیت مجھ پر طاری ہوتی ہے۔
سڑکوں پر روزانہ کتنی ہی دفعہ ٹریفک جام ہوتا ہے، کتنی ہی دفعہ چھوٹے موٹے حادثات ہوتے ہیں یا کوئی شخص گاڑی غلط طریقے سے چلاتا ہے، جس پر دوسرا غصے میں چلا کر اسے انہی بُرے الفاظ سے نوازتا ہے جن الفاظ میں عورت کی تذلیل چھپی ہوتی ہے۔ یوں لگنے لگا ہے جیسے لوگوں کو اپنی زبان سے عورت کو گالی دے کر سکون ملتا ہے۔ میں نے بہت سے باریش بزرگوں کو بھی جب ایک دوسرے سے لڑتے ہوئے غصہ کرتے ہوئے سنا تو نہایت افسوس ہوا کے اچھے خاصے سمجھ دار لوگ بھی اس بیماری میں مبتلا ہیں۔ زبان کا چٹخارہ بھی ہوگیا اور مدِمقابل کی ماں بہن کو گالی دے کر سکون بھی حاصل کرلیا۔
میں چونکہ دن میں دو دفعہ خود ڈرائیونگ کرکے نوکری پر آتی جاتی ہوں تو روزانہ ایسے کتنے ہی لوگ مجھے نظر آتے ہیں جو عورت کے حوالے سے اپنی سوچ کی گندگی کو نہ ظاہر کر پاتے ہیں اور نہ ہی چھپا پاتے ہیں۔ جب آپ کسی بُرے فعل کو اپنی نگاہوں کے سامنے ہوتا ہوا دیکھیں اور آگے بڑھ جائیں تو یاد رکھئے گا کہ کل وہی سب کچھ آپ کے اپنے گھر کے فرد کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔
دراصل یہ معاشرتی رویے ہیں جو خواتین کے مصائب اور مسائل کا بنیادی سبب بنے ہوئے ہیں۔ ہمارے ہاں ملازمت پیشہ خواتین کے بارے میں بہت منفی رویہ پایا جاتا ہے جو طرزعمل میں ڈھل کر ان خواتین کے لئے تکلیف اور مصیبتوں کا سبب بن جاتا ہے۔ ہمارے یہاں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو کسب معاش کے لئے گھر سے نکلنے والی عورت کو ’’پبلک پراپرٹی‘‘ سمجھ بیٹھتے ہیں۔ اس رویے اور طرز عمل ہی سے ملازمت پیشہ خواتین کو ہراساں کئے جانے اور ان کے عدم تحفظ کا المیہ جنم لیتا ہے۔ ہمیں اس سوچ کو فروغ دینے کی ضرورت ہے کہ گھر سے باہر جاکر اپنے خاندان کے لئے کام کرنے والی عورت بھی دراصل گھرداری ہی کر رہی ہے اور گھر میں رہتے ہوئے اپنی ذمے داریاں نبھانے والی خواتین ہی کی طرح محترم ہے۔ اسی طرح اس سوچ کا فروغ بھی نہایت ضروری ہے کہ ہر عورت قابل عزت واحترام ہے، اس کے لئے کسی کو ماں، بہن، بیٹی سمجھنا ضروری نہیں۔
اس فکر کو پروان چڑھانا ناگزیر ہے کہ عورت کو تعلیم حاصل کرنے کا حق بھی ہے اور اپنی صلاحیتوں کو منوانے کا بھی۔ گھر گھر اس شعور کو اُجاگر کرنا بھی لازمی ہے کہ عورت پر ہاتھ اٹھانا اور اس کی تضحیک کرنا غیرانسانی عمل ہے۔ یہ سوچ اور شعور ایک منصوبے کے تحت فروغ پا سکتے ہیں اور یہ منصوبہ ہر گھر میں شروع ہونا چاہئے۔ آپ اپنی بیٹوں کے ذہنوں کو اس سوچ سے مہکائیں اور بیٹیوں کو عزت نفس دیں، بس اتنا سا ہے یہ منصوبہ، اس پر عمل درآمد کیجئے، ہمارے ملک میں خواتین کے مسائل کسی حکومتی منصوبے کے بغیر بھی حل ہونے لگیں گے۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ عورت کے حقوق کا تحفظ اور اسے باعزت مقام دینا معاشرے کی بنیادی ضرورت ہے، کیوں کہ عورت ہی معاشرے کو اچھے افراد دے سکتی ہے۔
عزت اور غیرت کی بات آئے تب یہ عورت ہی ہے جسے اس معاشرے میں جان لے کر خود کو بہادر اور دلیر ثابت کیا جاتا ہے۔ نہ جانے کب ہمارے مرد یہ بات سمجھیں گے کہ کسی عورت کی جان لینا بہادری نہیں بلکہ اسے اس کے گناہوں کے ساتھ راہِ راست پر لانے کی کوشش اور برداشت کرنا بہادری اور مردانگی ہے جبکہ عرصہ دراز سے پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل کرنا قانونی لحاظ سے وہ جرم ہے جس میں سب سے زیادہ آسانیاں پیدا کردی گئی ہیں۔ اب چاہے وہ مقتولہ نے عزت اچھالنے یا عزت کو داغ دار کرنے کا کوئی عمل کیا ہو یا نہ کیا ہو، اس کو عزت اور غیرت کے نام پر قتل کا نام دیتے ہوئے قتل کر دیا جاتا ہے اور ہمارا قانون خاموش تماشائی کی طرح اس معاشرے میں پلنے والے بھڑیوں کو مزید گناہ کرنے کے لئے آزاد چھوڑ دیتا ہے۔
اگرچہ پارلیمینٹ نے غیرت کے نام پر قتل اور زنابالجبر کے روک تھام کا بل منظور کرلیا ہے، جس کی تفصیلات سامنے آچکی ہیں، لیکن کوئی بل کوئی قانون معاشرے کی سوچ اور رویے نہیں بدل سکتا، اس کے لئے معاشرے کو اپنی سوچ اور رویے کا جائزہ لینا ہوگا