علمِ نجوم کی روشنی میں
کنور خالد علی خاں
کنور خالد صاحب نے 23 جولائی 2017ء کو سچ ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے نوازشریف کے متعلق کہا تھا کہ ان کیلئے 4 سے 5 دن بہت بھاری ہیں۔ ان کی پیش گوئی درست ثابت ہوئی۔ ادارہ
قارئین کرام! ملک میں جاری سیاسی و عدالتی کشمکش کا اختتام بالآخر محمد نوازشریف کے خلاف 28 جولائی 2017ء کو آنے والے سپریم کورٹ کے فیصلے کے ساتھ ہی ہوگیا ہے۔ اب جو منظرنامہ سامنے ہے اس میں مندرجہ ذیل نکات پر اس علم کے حوالے سے قیاس آرائی پیش خدمت ہے۔
ا یک: وسط ماہ ستمبر تک حادثات یا شدت پسندی کے تحت پیش آنے واقعات کے سبب انسانی جانوں کے نقصان کا اندیشہ ہے۔
دو: وزارتِ عظمیٰ کھو دینے کے باوجود نواز شریف کا امیج ماہ ستمبر اور اکتوبر میں بحال ہوتا نظر آرہا ہے۔ ان کے زائچۂ پیدائش کو دیکھتے ہوئے اور اس کا موازنہ مذکورہ دو ماہ کے دوران سیارگان کی باہمی نظرات سے کیا جائے تو یہ عرصہ نواز شریف کیلئے بہتر ثابت ہوگا، پھر 11 اکتوبر سے ستارہ مشتری کا برجِ عقرب میں داخلہ ان کے لئے عوام میں مقبولیت کا سبب بنے گا تاہم دسمبر 2017ء سے قانونی الجھنوں میں اضافہ ہوجائے گا، یہ سلسلہ جنوری، فروری 2018ء اور پھر جون سے دوبارہ شدت اختیار کرتے ہوئے نومبر تک کے عرصہ پر محیط ہوگا، گویا 2018ء عوامی مقبولیت کے باوصف نواز شریف کیلئے رکاوٹوں کا سال ثابت ہوگا۔
تین: سپریم کورٹ کا فیصلہ 28 جولائی کو آیا ہے، یہ تاریخ آصف علی زرداری کیلئے خاطرخواہ طور پر بہتر تھی۔ کہا جاسکتا ہے کہ اس اقدام کے بعد جو سیاسی صورتحال ابھر کر سامنے آئے گی وہ پایانِ کار مسٹر زرداری کے حق میں جاتی دکھائی دیتی ہے، کم سے کم تعبیر اس کی یہ لی جاسکتی ہے کہ زرداری احتساب کے عمل کی زد میں آتے دکھائی نہیں دیتے۔
چار: 28 جولائی عمران خان کیلئے اتنے بہتر نتائج کی حامل دکھائی نہیں دیتی جتنا بظاہر قیاس کیا جاسکتا ہے تاہم 11 اکتوبر سے شروع ہونے والا ایک سال کپتان کیلئے صحت، قوتِ کار اور معاشیات کیلئے زیادہ بہتر ہے۔ رواں سال دسمبر کے آخر سے عمران خان کے رویوں میں نمایاں تبدیلیاں دیکھی جاسکیں گی۔ وہ ایک کھلنڈرے اور گفتگو میں غیرمحتاط شخص کی جگہ سنجیدگی اختیار کریں گے، برجِ جدی میں زحل کا داخلہ آنے والے سالوں میں ان کی فکر میں گہرائی اور عمل میں پختگی کا غماض نظر آتا ہے۔
پانچ: نواز شریف کا اقتدار سے الگ ہونا بحرکیف ایک بڑا واقعہ ہے۔ دل چاہا کہ آئندہ کے چند برسوں کی سیارگان کی پوزیشنز پر بھی نظر ڈالی جائے تاہم یہ دیکھ کر ایک تشویشناک حیرت کا سامنا کرنا پڑا کہ 2018ء میں اگر الیکشن ہونے کے نتیجے میں کوئی حکومت قائم ہوتی ہے تو اس کا تو خود اپنا وجود قائم رکھنا ہی دشوار دکھائی دیتا ہے، بلکہ اگر راقم الحروف یہ کہنے کی جسارت کرے کہ وہ تو 2020ء اور 2021ء میں ملک کو مارشل لاء کے تحت چلتا ہوا دیکھ رہا ہے تو اس میں اسے ذرا بھی تامل یا قباحت محسوس نہ ہوگی۔ سیاسی، عدالتی بحران جس کے آثار 2019ء سے ہی ظاہر ہونا شروع ہوجائیں گے۔ 2020ء اور 2021ء میں بدترین سطح پر پہنچ جائے گا اور یہ سلسلہ 2023ء تک جاری رہے گا۔ اس دورِابتلا میں ملک و قوم 1970 کی دہائی جیسے غیردانشمندانہ فیصلوں اور اقدامات کو دہرانے کی ہرگز متحمل نہیں ہوگی کیونکہ اس بار اندرونی کے علاوہ بیرونی خطرات بھی بدرجہ اتم موجود نظر آتے ہیں۔ یاد رہے کہ کرپشن ملک کی ترقی کی راہ میں سنگِ گراں ضرور ہے لیکن ملک کی ترقی یا عدم ترقی کا سوال تب ہی پیدا ہوتا ہے جبکہ ملک کا وجود خطرات سے باہر ہو۔
ذوقِ آگہی بحکمِ’’ دعوتِ فکرِ کائنات‘‘ رہا
حصولِ علم بقدرِ عطائے رب العالمیں ٹھہرا
وللہ العلم بالثواب