ساجد حسین ملک
چوبیس نومبر کے دن کا پاکستان کی آئندہ تاریخ میں ایک یادگار اور خوش آئند دن کے طور پر ذکر کیا جا سکے گا کہ اس دن شام کے سائے ڈھلنے سے قبل عساکرِ پاکستان کے نئے سربراہان کی باضابطہ تعیناتی کا ہی نہ صرف اعلان ہوگیا بلکہ ان ریشہ دوانیوں، فتنہ سامانیوں، سازشی کہانیوں، ہیجانی کیفیات، غیریقینی صورتِ حال اور خلفشارکا بھی خاتمہ ہوگیا جس نے کچھ عرصے سے ملک و قوم کو اپنے حصار میں لے رکھا تھا۔ نئے آرمی چیف کی تقرری کو متنازع بنانے کے لئے پچھلے چند ماہ کے دوران کیا کچھ نہیں ہوا۔ تقرری کے حوالے سے آئین و قانون میں دیئے گئے وزیراعظم کے صوابدیدی اختیارات پر قدغن لگانے کی کیا کیا کوششیں نہیں ہوئیں۔ کبھی یہ کہا گیا کہ امپورٹڈ حکومت کی طرف سے اس طرح کی تقرری کو قبول نہیں کیا جائے گا، کبھی فوج کے سینئر ترین تھری اسٹار جنرلز کی حب الوطنی کو یہ کہہ کر مشکوک بنانے کی کوششیں کی گئیں کہ نوازشریف اور آصف علی زرداری تگڑا اور محب الوطن آرمی چیف نہیں چاہتے جو ان کی کرپشن کو پکڑ سکے بلکہ ایسا آرمی چیف چاہتے ہیں جو ان کے مفادات کا تحفظ کرے، کبھی یہ کہا گیا کہ ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ کون آرمی چیف بنتا ہے اور ساتھ ہی تھری اسٹار جنرلز میں سے بطور آرمی چیف تقرری کے لئے سینئر ترین ہونے کے ناطے سب سے مضبوط اُمیدوار لیفٹیننٹ جنرل سید عاصم منیر کو یہ عذر لنگ تراش کر متنازع بنانے کی کوشش کی گئی کہ ان کی بطور لیفیٹننٹ جنرل ریٹائرمنٹ کی تاریخ 27 نومبر ہے جبکہ موجودہ آرمی چیف (جنرل قمر جاوید باجوہ) نے 29 نومبر کو ریٹائر ہونا ہے۔ اس طرح جنرل عاصم مینر آرمی چیف کے عہدے پر تقرری کے اہل نہیں رہتے کیونکہ وہ دو دن قبل 27 نومبر کو ریٹائر ہوجائیں گے۔ غرضیکہ کوئی ایسا حربہ، کوئی ایسا حیلہ بہانہ، کوئی ایسی ہرزہ سرائی اور کوئی ایسی الزام تراشی کرنے سے گریز نہ کیا گیا جس سے فوج کی اعلیٰ قیادت کو متنازع بنایا جاسکے تو حکومت بالخصوص وزیراعظم کو بھی دباؤ کا شکار کیا جاسکے۔ لیکن کہا جاتا ہے کہ انسان سو تدبیریں کرتا ہے، ہر طرح کے جتن کرتا ہے لیکن ہوتا وہی ہے جو منظور خدا ہوتا ہے اور کسی کے مقدر اور اس کی تقدیر کا لکھا ہوتا ہے۔
جنرل عاصم منیر اور جنرل ساحر شمشاد مرزا کی خوش نصیبی ہے کہ وہ تھری اسٹار جنرلز کی سینارٹی لسٹ میں پہلے اور دوسرے نمبر پر تھے۔ اور وزیراعظم میاں شہباز شریف نے اپنے بڑے بھائی اور پارٹی قائد میاں محمد نواز شریف سمیت اپنے حکومتی ساتھیوں اور اتحادیوں کی مشاورت اور راہنمائی اور موجودہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کو اعتماد میں لیتے ہوئے تھری اسٹار جنرل کی سینارٹی لسٹ میں پہلے اور دوسرے نمبر پر آنے والے لیفٹیننٹ جنرل سید عاصم منیر کی بطور آرمی چیف اور لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد مرزا کی بطور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی تقرری کی سمری ایوان صدر کو بھیجوانے کا فیصلہ کیا۔ 24 نومبر کی صبح ساڑھے دس بجے کے لگ بھگ یہ سمری ایوان صدر میں موصول ہوئی تو اس کے بعد صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے اس کے ساتھ جو سلوک کیا وہ اپنی جگہ کافی حد تک عبرت آموز اور حذراے چیرہ دستاں سخت ہیں، فطرت کی تعزیریں کی عکاسی نہیں کرتا بلکہ سبق آموز اور انجام کار خوش آئند بھی ہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے اپنی پارٹی کے قائد جناب عمران خان کا بغل بچہ بننے کی بجائے سربراہ ریاست و مملکت کے اعلیٰ ترین منصب کی لاج رکھنے اور دودھ میں مینگنیاں ڈالنے کے مترادف قانونی موشگافیوں میں پڑنے کی بجائے مسلمہ آئینی و قانونی روایات کی پاسداری کا فیصلہ کیا۔ تاہم معاملات اتنے سیدھے سادہ بھی نہیں تھے۔ کئی طرح کے خدشات اور وسوسے موجود تھے یہی وجہ ہے کہ چیف آف آرمی اسٹاف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے عہدوں پر نئی تقرریوں کی سمری ایوان صدر بھیجنے سے قبل لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کو ملازمت پر بدستور فائز رہنے (ریٹن) ہونے کی سمری کی وفاقی کابینہ سے منظوری لی گئی۔ جس کا مقصد یہ تھا کہ اگر جنرل عاصم منیر کی بطور لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرمنٹ کی تاریخ جو 27 نومبر ہے اور اس کے دو دن بعد انہوں نے بطور آرمی چیف 29 نومبر کو چارج سنبھالنا ہے اس طرح دو دن کا جو فرق بنتا ہے اس کو بنیاد بنا کر ایوان صدر کی طرف سے اگر کوئی رخنہ اندازی کی کوشش کی جائے تو اس کا تدارک ہوسکے۔ اس احتیاطی اقدام کے بعد وزیراعظم کی طرف سے سید عاصم منیر کی بطور آرمی چیف اور ساحر شمشاد مرز کی بطور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کی تقرری کی سمری ایوان صدر میں موصول ہوئی تو صدر مملکت نے سمری کی منظوری دینے کی بجائے اس دوران لاہور کے تین گھنٹے کے دورے پر زمان پارک میں سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سے ملنے کو ترجیح دی تو کئی طرح کے خدشات نے جنم لیا، لیکن اچھا ہوا کہ صدر مملکت نے لاہور سے واپس آتے ہی تقرریوں کی سمری پر دستخط کر دیئے۔ ولے بخیر بہ گزشت۔
یہاں 29 نومبر کو آرمی چیف کا منصب سنبھالنے والے جنرل سید عاصم منیر شاہ اور 27 نومبر کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا منصب سنبھالنے والے جنرل ساحر شمشاد مرزا کے بارے میں میڈیا میں آنے والی معلومات کا تھوڑا سا جائزہ لیتے ہیں۔ جنرل ساحر شمشاد مرزا کے بارے میں ذاتی طور پر مجھے کچھ زیادہ معلومات نہیں۔ میں ان کے بارے میں اتنا ہی جانتا ہوں جتنا بعض قومی اخبارات میں چھپا ہے۔ تاہم میں کہہ سکتا ہوں کہ ان کے بارے میں دل میں کچھ ایسے مثبت تاثرات کب سے موجود چلے آرہے تھے اور کسی حد تک یقین کی حدوں کو چھونے والا گمان بھی تھا کہ ان کا نام چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے عہدے پر تقرر کے لئے وزیراعظم کی طرف سے بھیجی جانی والی سمری میں موجود ہوگا۔ اچھا ہوا کہ ضلع چکوال کی مردم خیز سرزمین جہاں کے کتنے ہی سپوت فوج میں لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے تک ضرور پہنچے لیکن بطور فور اسٹار جنرل آرمی چیف یا چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے عہدوں پر تقرریوں سے محروم رہے، وہاں کے ایک سپوت کو بالآخر فور اسٹار جنرل کی حیثیت سے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی بننے کا اعزاز حاصل ہو ہی گیا۔ نومبر 2016ء میں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے دور میں چیف آف آرمی اسٹاف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کی تقرریاں ہونی تھیں تو ضلع چکوال سے ہی تعلق رکھنے والے لیفٹیننٹ جنرل ندیم اشفاق چیف آف آرمی اسٹاف کے عہدے کے ایک مضبوط امیدوار تھے۔ انہیں سبکدوش ہونے والے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی بھی تائید حاصل تھی لیکن بطور آرمی چیف تقرری کا قرعہ ان سے جونئیر (سینیارٹی لسٹ میں غالباً تیسرے نمبر پر) جنرل قمر جاوید باجوہ کے نام نکلا۔ اب بھی ضلع چکوال سے ہی تعلق رکھنے والے ایک اور لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید جو کچھ عرصہ قبل تک آرمی چیف کے عہدے کے مضبوط ترین امیدوار کی شہرت اختیار کئے ہوئے تھے اب اس دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں کہ ان کا نام لیفٹیننٹ جنرلز کی سینیارٹی لسٹ میں پانچویں نمبر پر تھا جبکہ قرعہ فال سینیارٹی لسٹ میں پہلے اور دوسرے نمبر پر آنے والے جرنیلوں کے نام نکلا۔ اسے قسمت کا لکھا بھی کہا جا سکتا ہے۔ خیر یہ ذکر برسبیل تذکرہ آگیا جبکہ نئے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل سید عاصم منیر کے حوالے سے کچھ اظہار خیال کرنا مقصود ہے۔
جنرل سید عاصم منیر شاہ سے ذاتی طور پر میرا کوئی تعارف نہیں لیکن ان کے گھرانے بالخصوص ان کے والد گرامی سید سرور منیر شاہ مرحوم سے ضرور نیاز مندی رہی تو ان کے چھوٹے بھائی سید ہاشم منیر شاہ جو ایف جی سرسید سیکنڈری اسکول میں پڑھاتے ہیں سے کچھ شناسائی ضرور ہے۔ 1968ء میں بی ایڈ کرنے کے بعد سی بی ٹیکنیکل ہائی اسکول طارق آباد لال کڑتی میں بطور مڈل کلاسسز ٹیچر میرا تقرر ہوا تو سید سرور منیر شاہ وہاں پہلے سے بطور ریاضی ٹیچر تعینات تھے۔ کسی حد تک بھاری جسم، پاٹ دار آواز اور گھنی داڑھی کے مالک سید سرور منیر شاہ سینئر کلاسسز کو ریاضی کا مضمون پڑھاتے تھے۔ اسکول کے ہیڈماسٹر مرحوم انصاری صاحب سے ان کی گاڑھی چھنتی تھی تو راولپنڈی کینٹ بورڈ کے افسران اور دیگر عسکری حکام سے بھی ان کے گہرے مراسم تھے۔ عمومی طور پر ان کا شمار ان اساتذہ میں ہوتا تھا جو پرو انتظامیہ شمار ہوتے تھے۔ سروس کے آخری برسوں میں وہ ایف جی سیکنڈری اسکول نئی چھاؤنی کے پرنسپل مقرر ہوئے تو میٹنگز میں ان سے کبھی کبھار ملاقات ہوجاتی تھی۔ بلاشبہ صوم و صلوۃ کے پابند ایک نیک اطوار اور بلند کردار شخصیت تھے۔ جنہیں اپنے حلقہ احباب میں ہی نہیں بلکہ اپنے آبائی محلے ڈھیری حسن آباد اور لال کڑتی وغیرہ میں بھی بڑی عزت کی نگاہوں سے دیکھا جاتا تھا۔ جنرل سید عاصم کی بطور آرمی چیف تقرری کا اعلان ہوا ہے تو ڈھیری حسن آباد اور نواحی علاقوں میں بلاشبہ خوشی کی لہر دوڑی ہوئی ہے۔ آخر میں تھوڑا سا تذکرہ جنرل نعمان محمود راجا کا کرنا چاہوں گا۔ جی ایچ کیو کی طرف سے وزیراعظم کو چیف آف آرمی اسٹاف اور چیئر مین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کی تقرری کے لئے چھ سینئر ترین لیفٹیننٹ جنرلز کے ناموں کی جو سمری بھیجی گئی اس میں جنرل نعمان محمود راجا کا چوتھا نمبر تھا۔ جنرل نعمان پچھلی صدی کی 70 کی دہائی میں سرسید اسکول میں میرے شاگرد رہے ہیں، ان کا تعلق میرے آبائی گاؤں چونترہ کے نواحی قصبے ادہوال سے ہے جہاں کے ہائی اسکول سے میں نے میٹرک امتحان پاس کیا۔ جنرل نعمان کے والد لیفٹیننٹ کرنل سلطان محمود راجا 1971ء میں مشرقی پاکستان کی خانہ جنگی کے دوران وہاں تعینات تھے اور 22 بلوچ رجمنٹ کی کمان کررہے تھے۔ وہ مکتی باہنی کے باغیوں اور بھارتی فوج کا بہادری سے مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوئے۔ بریگیڈیئر صدیق سالک مرحوم نے المیہ مشرقی پاکستان کے بارے میں اپنی شہرۂ آفاق تصنیف ”میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا“ (وٹنیس تو سرنڈر) میں کرنل سلطان محمود راجا کی بہادری اور شجاعت کا بطور خاص ذکر کیا ہے۔ جنرل نعمان محمود راجا کا نام سینیارٹی لسٹ میں چوتھے نمبر پر ہونے کی وجہ سے آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے عہدوں پر تقرری کے لئے بھیجے والے ناموں میں شامل نہیں ہوسکا لیکن مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ جنرل نعمان محمود راجا کو اس کا کوئی زیادہ قلق نہیں ہوگا کہ وہ وسیع ظرف اور اعلیٰ پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے مالک ایسی شخصیت ہیں جنہیں اپنے ادارے کی عزت و ناموس اور اپنی نیک نامی اور خاندانی وجاہت سب سے بڑھ کر عزیز ہے۔ بلاشبہ مجھے ہی نہیں بلکہ محترم اختر چوہدری، جناب امیر ملک اور جناب سلطان شاہین جیسے ان کے اساتذہ کو بھی ان پر فخر ہے۔