عسکری قیادت کی تبدیلی کی پُروقار تقریب نے اس بات کی اُمید بڑھا دی ہے کہ ملک کو درپیش خطرات اور چیلنجز سے نمٹنے کی سبیل ہوجائے گی۔ جنرل سید عاصم منیر شاہ کا پروفیشنل کیریئر اس بات کی طرف اشارہ کررہا ہے کہ وہ سب سے پہلے عسکری اداروں کے وقار کو بحال کریں گے اور پاک فوج کے مورال کو بلند کرنے کے اقدامات کریں گے اور فوج کے متعین آئینی کردار کو فوقیت و اہمیت دیں گے، سیاسی آلودگی سے ادارے کو دور رکھیں گے کیونکہ فوج کو سیکیورٹی چیلنجز درپیش ہیں، افغان بارڈر سے آئے روز فائرنگ کے واقعات میں ہمارے جوان و افسران شہید ہورہے ہیں۔ جس کا بھرپور سدباب کرنا ہوگا، اگر طالبان کا اپنی سرزمین پر کنٹرول نہیں ہے یا وہ امریکی گیم کا حصہ بن کر ہمارے خلاف کارروائیاں کررہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ پاکستان کے لئے کسی خاص منصوبے پر عمل کیا جارہا ہے، یقیناً ہماری عسکری قیادت اس کی گہرائی اور گیرائی کو سمجھتے ہوئے کوئی نہ کوئی منصوبہ بندی کررہی ہوگی، دوسرا مسئلہ بلوچستان میں بڑھتی دہشت گردی ہے جس میں قوم پرست دہشت گرد تنظیم ملوث رہی ہے، 30 ستمبر کو کوہلو بازار میں دھماکہ کیا تھا جس سے 2 افراد شہید اور 19 زخمی ہوئے تھے جبکہ دہشت گرد علاقے میں بھتہ اور اغوا برائے تاوان کی وارداتیں کررہے تھے پھر یکم دسمبر کو کوئٹہ میں پولیو ٹیم کی حفاظت پر مامور پولیس وین کو نشانہ بنایا گیا، اس کارروائی میں رکشہ کا استعمال ہوا۔ امکان یہ بتایا گیا کہ خودکش بمبار رکشہ میں سوار تھا، پھر 2 دسمبر کو کابل میں ہمارے سفارتخانے کے باہر فائرنگ کا واقعہ ہوا جس میں 4 پولیس اہلکار شہید ہوئے۔ یہ سارے واقعات اس بات کا تقاضا کررہے ہیں کہ جنرل راحیل شریف کے دور میں دہشت گردوں کے خلاف جس انداز سے جارحانہ کارروائیاں کی جارہی تھیں، اس سلسلے کو دوبارہ شروع ہونا چاہئے، بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں دہشت گردوں نے اپنے آپ کو مضبوط کیا ہے، ان کا نیٹ ورک بحال ہوتا نظر آرہا ہے، خیبرپختونخوا کے ضلع سوات میں کالعدم ٹی ٹی پی نے جس انداز سے موومنٹ کی ہے اس میں صوبائی حکومت کا کردار مشکوک لگتا ہے، وزیرستان کے امن پسند عوام نے دہشت گردوں کے واپس آنے اور متحرک ہونے پر بڑی احتجاجی ریلی نکالی یعنی عوام دوبارہ دہشت گردوں کو دندناتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتے۔ ہماری نئی عسکری قیادت کے لئے یہ دو بڑے چیلنجز ہیں جس سے نمٹنا ہوگا، اس میں سیاسی قیادت کو بھی شانہ بشانہ کھڑے رہنا ہوگا، بلوچستان کے علاقے کوہلو میں یکم دسمبر کو انٹیلی جنس بنیاد پر آپریشن کیا گیا جس میں 9 دہشت گرد مارے گئے، اس کے علاوہ پنجاب میں کومبنگ آپریشن کے دوران 9 دہشت گرد گرفتار ہوئے، یہ کارروائیاں اشارہ ہیں کہ نئی عسکری قیادت دہشت گردوں سے متعلق کسی لچک کا مظاہرہ نہیں کرے گی، ساتھ ہی جو تبادلے و تقرریاں ہوئی ہیں وہ بھی مثبت سمت کی جانب اشارہ کررہی ہیں۔ ملکی معیشت کی زبوں حالی دہشت گردی کے خلاف نئے آپریشن پر اثر ڈالے گی کیونکہ اس کے لئے بھی وسائل چاہئے اور ملکی خزانہ کی حالت یہ ہے کہ دوست ملکوں سے ادھار اور ڈیپازٹ لے کر کام چلایا جارہا ہے، عسکری قیادت کے لئے معیشت بھی ایک چیلنج ہے، جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ اس شعبے میں اپنے ذاتی اثرورسوخ اور تعلقات کو استعمال کرکے عرب ملکوں سے کچھ مراعات اور امداد حاصل کرتے رہے، جنرل سید عاصم منیر کو بھی اُس میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، عرب ممالک ہماری سیاسی سے زیادہ عسکری قیادت پر بھروسہ کرتے ہیں۔ اس لئے عسکری قیادت کو ماضی کی طرح متحرک ہونا ہوگا، خصوصاً چین کے ساتھ سی پیک منصوبوں میں تیزی لانے میں بھی کردار ادا کرنا ہوگا، گزشتہ سیاسی دور میں اعتماد متزلزل ہوا تھا، وہ ابھی تک مکمل بحال نہیں ہوسکا ہے، اس کی بحالی میں اور چین سے معاشی اور اسٹرٹیجک سپورٹ لینے میں ہماری عسکری قیادت کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، ساتھ ہی قطر سے گیس کے حصول میں جو کوششیں جاری ہیں آرمی چیف کو اپنے طور پر بھی رابطہ کرنا پڑے گا، کیونکہ گھریلو، کمرشل اور صنعتی صارفین اس صورتِ حال میں بہت پریشان ہیں اور روس سے پیٹرول خریدنے کے معاملے کو بھی ازسرنو اٹھانا ہوگا، ہماری معیشت پر مہنگا تیل ایک بڑا بوجھ ہے، اگر روس سے تیل مل جائے تو اس بوجھ میں 30 سے 40 فیصد کمی آسکتی ہے۔ سرمایہ کاروں سے ملاقات کرکے ان کا اعتماد بھی بحال کرنا ہوگا، سیاسی غیریقینی نے ملکی معیشت کا بھٹہ بٹھا دیا ہے۔ ملک میں جاری معاشی غیریقینی کا تعلق سیاسی غیریقینی سے جڑتا ہے، عسکری قیادت کو تمام سیاسی اسٹیک ہولڈرز کو ایک میز کے گرد بٹھانا ہوگا، سیاسی معاہدے کے لئے سب کو قریب لانا ہوگا کیونکہ بیرون دشمن سے نمٹنے کے لئے سیاسی استحکام ضروری ہے، روایتی دشمن بھی کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا، فوج کے خلاف منفی پروپیگنڈا کو اپنے میڈیا میں خوب کوریج دے رہا ہے، یہ منفی پروپیگنڈا سرحد پر تعینات ہمارے جوانوں پر منفی اثر ڈالتا ہے، سوشل میڈیا پر موجود ملک دشمنوں کو بے نقاب کرنا ہوگا اور انہیں قانون کے کٹہرے میں لانا ہوگا، سیاسی قیادت کو بھی اس ضمن میں اپنی عسکری قیادت کا بھرپور ساتھ دینا ہوگا، ہمارے جوان تقریباً روزانہ شہادت کا نذرانہ پیش کررہے ہیں، ساتھ میں پولیس اور دیگر سول فورس کے اہلکار بھی قربانیاں دے رہے ہیں، ان قربانیوں کے پیش کرنے کے بعد بھی ہماری فورسز کو منفی پروپیگنڈا کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو یہ افسوسناک کے ساتھ قابل گرفت ہے۔ ملک میں جاری سیاسی بے یقینی کے خاتمے کے لئے تمام جماعتوں کو انا، ضد اور ہٹ دھرمی ترک کرنا پڑے گی، اندرون استحکام کا مثبت اثر عالمی سطح پر بھی ہوگا، ہماری سول و عسکری قیادت کسی بھی ایشو پر دوست ممالک سے بات کرے گی تو ان کے موقف پر توجہ دی جائے گی اس لئے یہ ضروری ہے کہ سیاسی قیادت اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے نئی عسکری قیادت کو مزید کسی امتحان میں نہ ڈالے، کیونکہ برداشت کی بھی ایک حد ہوتی ہے اور عسکری قیادت کے لئے سب سے پہلے پاکستان ہے اور اس کے عوام کا مفاد عزیز ہے اور وہ ہر ایسے اقدام سے گریز نہیں کرے گی جس سے ملکی سلامتی کا معاملہ جڑا ہوا ہو، یہاں ہم ایک مرتبہ پھر تمام سیاسی قیادت سے گزارش کریں گے کہ وہ سیاسی سے زیادہ ملکی مفاد کو دیکھیں، آج اگر کسی سے اقتدار چھن گیا ہے تو کل دوبارہ مل سکتا ہے، اقتدار کے کھیل کو ضد اور انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہئے، ملک میں استحکام آئے گا تو ووٹرز بھی پُرجوش ہوگا اور زیادہ متحرک ہوگا، اگر اُسے احتجاجی سیاست ہی میں لگائے رکھا جائے گا تو ایک دن مایوس ہو کر گھر بیٹھ جائے گا، جس کا نقصان سب کو ہوگا، اسمبلیوں سے استعفیٰ دینے کا فیصلہ بھی غیردانشمندانہ لگتا ہے، اس وقت ملک قبل از وقت انتخابات کا متحمل نہیں ہے، چند ماہ کی بات ہے یہ وقت بھی گزر جائے گا، اسمبلیاں مدت پوری کریں تو سیاسی نظام تسلسل کے ساتھ چلتا رہے گا، تین بڑی سیاسی جماعتیں ہی اقتدار میں آئیں گی، آج ایک اتحادی حکومت برسراقتدار ہے تو کل تحریک انصاف دوبارہ اقتدار حاصل کرسکتی ہے، ویسے بھی اس وقت پنجاب، خیبرپختونخوا، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں تحریک انصاف اقتدار میں ہے، اگر وہ پارلیمان کا حصہ رہتی ہے تو اس کا سیاسی فائدہ اسے ضرور ملے گا، استعفیٰ دینا مہنگا پڑ سکتا ہے، عسکری قیادت نے سیاسی معاملات میں غیرجانبدار ہونے کا جو فیصلہ کیا ہے وہ درست ہے، اگر کسی فریق کو اس کا سیاسی نقصان ہورہا ہے تو یہ عارضی ہے، بعد میں اس کے ثمرات بھی مل سکتے ہیں۔ معاشی پالیسی میں عدم تسلسل اس کی بڑی وجہ ہے، اس شعبے میں بھی دیکھنا ہوگا کیونکہ عوام اور تاجر پاک فوج پر مکمل بھروسہ رکھتے ہیں۔ سیاسی قیادت دعوے تو بڑے کر لیتی ہے لیکن عمل درآمد میں سستی کا مظاہرہ کرتی ہے، سیلاب زدگان کے معاملے کو بھی دیکھنا ہوگا کیونکہ فوڈ کرائسز کا سیکیورٹی سے براہ راست تعلق ہے، متاثرین کو بروقت معاشی امداد نہ ملی تو فصلوں خصوصاً گندم کی فصل میں نمایاں کمی ہوسکتی ہے جس سے مہنگائی بڑھے گی اور جو کسی بھی وقت امن وامان کی صورتِ حال کو خراب کرسکتی ہے۔ وفاقی حکومت نے کسان پیکیج کا اعلان تو کردیا مگر ابھی تک ہمارے آبادگار اور کسان امداد سے محروم ہیں، مہنگا بیج اور زرعی ادویات و اسپرے خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے، اس لئے امداد کے نظام کو بیوروکریسی پر نہیں چھوڑا جاسکتا، اس میں ہماری عسکری فورسز کو استعمال کرنا ہوگا کیونکہ ان کے پاس سول اداروں سے زیادہ معتبر اعدادوشمار ہیں، ملک کے دوردراز علاقوں کے ایک ایک گاؤں کی پوری تفصیلات موجود ہیں اس لئے فوج کی مدد کے بغیر بحالی کا کام شفاف انداز سے نہیں ہوسکتا، نئی عسکری قیادت کو بڑے بڑے چیلنجز درپیش ہیں، ان کا امتحان بھی سخت ہے لیکن قوم کو پوری اُمید ہے کہ جنرل سید عاصم منیر اس امتحان میں سرخرو ہوں گے۔ (انشااللہ)