Wednesday, July 16, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

نئی حلقہ بندیاں

آبادی بڑھنے کے باوجود کئی اضلاع میں اسمبلی نشستیں کم3 نشستوں کے بجائے جیکب آباد اور کشمور کو قومی اسمبلی کی ایک ایک نشست ملے گی، کرم ایجنسی کی ایک نشست کم ہوگئی
سید اشرف علی
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی زیرنگرانی ملک بھر میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کی نئی حلقہ بندیوں کی تشکیل کے لئے جو اصول وضع کیا گیا ہے اس کے تحت کئی اضلاع میں قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں کمی بیشی ہو رہی ہے۔ 2017ء کی مردم شماری کے بعد بیشتر اضلاع میں آبادی کافی بڑھ چکی ہے تاہم نشستیں بڑھنے کے بجائے کم ہورہی ہیں، اندرون سندھ سے کراچی میں قومی اسمبلی کی ایک اور صوبائی اسمبلی کی 2 نشستیں منتقل ہورہی ہیں جس سے کراچی میں قومی اسمبلی کی مجموعی تعداد 21 ہوجائے گی اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں بڑھ کر 44 ہوجائیں گی۔
جیکب آباد جس کی آبادی 10 لاکھ سے زائد ہے تاہم وہ ایک قومی اسمبلی سے محروم ہوگیا ہے، کراچی اور اندرون سندھ کے 5 اضلاع ڈسٹرکٹ سینٹرل، ساؤتھ نوشہروفیروز، شہید بے نظیر آباد اور شکارپور صوبائی اسمبلی کی نشستوں سے محروم ہورہے ہیں اور یہ نشستیں ڈسٹرکٹ ویسٹ، ملیر، کورنگی، ایسٹ اور خیرپور میں اضافے کا باعث بن رہی ہیں۔
خیبرپختونخوا کے ضلع بنوں میں آبادی 11 لاکھ 67 ہزار 892 ہے لیکن قومی اسمبلی کی ایک نشست ملے گی، فاٹا کے علاقے کرم ایجنسی میں 2013ء تک قومی اسمبلی کی 2 نشستیں تھیں، نئی مردم شماری کے تحت آبادی بڑھ گئی تاہم ایک نشست کم ہوگئی۔
پنجاب میں سب سے بڑا حلقہ حافظ آباد میں تشکیل ہورہا ہے جس کی آبادی 11 لاکھ سے زائد ہے لیکن قومی اسمبلی کی ایک نشست کم ہورہی ہے، الیکشن کمیشن کے متعلقہ افسران نے بتایا کہ نئی حلقہ بندیوں کے آئینی ترمیمی بل 2017ء کے ذریعے صوبوں، اسلام آباد اور فاٹا میں قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد کا تعین کیا گیا ہے جس کے تحت الیکشن کمیشن نے ضلعی سطح پر نشستوں کی تقسیم کے لئے فارمولا وضع کیا ہے۔
اس فارمولے کے تحت 1.5 کے تناسب پر 2 نشستیں بنائی جائیں گی جبکہ اس سے کم پر ایک نشست ملے گی، اس حساب سے کئی اضلاع میں آبادی کافی بڑھی ہوئی نظر آرہی ہے لیکن نشست ایک ملے گی، خیبرپختونخوا کے علاقے بنوں میں آبادی 11 لاکھ 67 ہزار 892 ہے لیکن قومی اسمبلی کی ایک نشست ملے گی، خیبرپختونخوا میں آبادی کے حساب سے بنوں کی قومی اسمبلی کی نشست سب سے بڑی ہوگی۔
فاٹا کے علاقے کرم ایجنسی میں 2013ء تک قومی اسمبلی کی 2 نشستیں تھیں، موجودہ آبادی اور فارمولے کے تحت یہاں ایک نشست بنتی ہے اور یہ فاٹا کی سب سے بڑی قومی اسمبلی کی نشست ہوگی، کرم ایجنسی میں 1998ء کی مردم شماری کے حساب سے آبادی 4 لاکھ 48 ہزار 310 تھی اور قومی اسمبلی کی 2 نشستیں تھیں، 2017ء میں اس کی آبادی بڑھ کر 6 لاکھ 19ہزار 553 ہوگئی ہے لیکن جو فارمولا طے کیا گیا ہے اس کا تناسب 1.49 ہے، نتیجتاً کرم ایجنسی ایک نشست سے محروم ہوگئی ہے اور یہ نشست باجوڑ ایجنسی میں منتقل ہورہی ہے۔
پنجاب میں قومی اسمبلی کی سب سے بڑی نشست ڈسٹرکٹ حافظ آبادکی ہوگی، 2017ء کی مردم شماری میں حافظ آباد کی آبادی 11 لاکھ 56 ہزار 957 ہوگئی ہے مگر فارمولے کے تحت تناسب تناسب 1.48 بنتا ہے جس کی وجہ سے قومی اسمبلی کی ایک نشست ملے گی، 1998ء کی مردم شماری میں حافظ آباد کی آبادی 8 لاکھ 32 ہزار 980 تھی اور قومی اسمبلی کی 2 نشستیں تھیں، سندھ حکومت کی جانب سے کچھ سال قبل انتظامی طور پر ڈسٹرکٹ جیکب آباد کو 2 حصوں میں تقسیم کردیا گیا اور کشمور کو علیحدہ کرکے الگ ڈسٹرکٹ بنادیا گیا ہے۔
ماضی میں 2002ء کی حلقہ بندی کے تحت جیکب آباد میں قومی اسمبلی کی 3 نشستیں تھیں تاہم نئی حلقہ بندیوں کے تحت ایک نشست تشکیل دی جائے گی جس کی بڑی وجہ کشمور کو علیحدہ ڈسٹرکٹ بنایا جانا ہے، جیکب آباد کی موجودہ آبادی سے فارمولے کے تحت تناسب 1.28 بنتا ہے جس کی وجہ سے اسے ایک نشست ملے گی، کشمور کی موجودہ آبادی کے تحت تناسب 1.39 بنتا ہے جس کے تحت کشمور کو بھی ایک نشست ملی گی، نتیجتاً جیکب آباد و کشمور ایک نشست سے محروم ہوجائیں گے۔
سندھ میں قومی اسمبلی کی سب سے بڑی نشست کشمور میں تشکیل پائی گی جس کی آبادی 10 لاکھ 89 ہزار 169 ہے جبکہ جیکب آبادکی آبادی 10 لاکھ چھ ہزار 297 ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جیکب آباد سے کم ہونے والی قومی اسمبلی کی نشست کراچی کے ملیر ڈسٹرکٹ میں منتقل ہورہی ہے، اس طرح کراچی میں ایک نشست کا اضافہ ہورہا ہے، پہلے کراچی میں قومی اسمبلی کی 20 نشستیں تھیں، اب 21 ہوجائیں گی، ڈسٹرکٹ ملیر کی آبادی 20 لاکھ 8 ہزار 901 ہے جس کا تناسب 2.56 بنتا ہے، اس تناسب کی وجہ سے ملیر میں ایک نشست کا اضافہ ہوگا، کراچی کے ڈسٹرکٹ سینٹرل میں قومی اسمبلی کی ایک نشست کم ہو کر ڈسٹرکٹ ویسٹ میں منتقل ہورہی ہے۔
نئی مردم شماری کے تحت ڈسٹرکٹ سینٹرل کی آبادی 29 لاکھ 71 ہزار 626 ہے جس کا تناسب 3.7 بنتا ہے یعنی 4 نشستیں جبکہ ڈسٹرکٹ ویسٹ کی آبادی 39 لاکھ 14 ہزار 757 ہوگئی ہے جس کا تناسب 4.9 یعنی 5 نشستیں بنتی ہیں، 1998ء کی مردم شماری میں ڈسٹرکٹ سینٹرل کی آبادی 22 لاکھ 77 ہزار 931 تھی جبکہ ڈسٹرکٹ ویسٹ میں 20 لاکھ 89 ہزار 509 تھی، 2013ء کے الیکشن تک این اے 243 کی حلقہ بندی 50 فیصد مساوی طور پر ڈسٹرکٹ سینٹرل و ویسٹ میں تقسیم تھی تاہم نئی حلقہ بندی کے تحت اب یہ نشست مکمل طور پر ڈسٹرکٹ ویسٹ میں منتقل ہوجائے گی۔
کراچی میں ڈسٹرکٹ ساؤتھ میں قومی اسمبلی کی ایک نشست کم ہو کر ڈسٹرکٹ ایسٹ میں منتقل ہورہی ہے، کراچی میں قومی اسمبلی کی سب سے بڑی نشست ڈسٹرکٹ ساؤتھ میں تشکیل پارہی ہے جس میں فی نشست آبادی کا تناسب 8 لاکھ 95 ہزار 876 بن رہا ہے۔ سندھ میں مجموعی طور پر صوبائی اسمبلی کی نشستیں 130 بدستور برقرار ہیں تاہم کراچی اور اندرون سندھ کے اضلاع میں نشستوں میں کمی بیشی ہورہی ہے۔
الیکشن کمیشن نے جو فارمولا وضع کیا ہے وہ فی نشست 3 لاکھ 68 ہزار 354 آبادی پر مشتمل ہے، اس فارمولے کے ذریعے اضلاع میں نشستیں تقسیم کی گئیں جس کے تحت سندھ کے 5 اضلاع صوبائی اسمبلی کی نشستوں سے محروم ہورہے ہیں، اندرون سندھ کے اضلاع نوشہروفیروز اور شہید بے نظیر آباد کی 1-1 صوبائی اسمبلی کی نشست کم ہو کر کراچی کے ڈسٹرکٹ کورنگی اور ڈسٹرکٹ ملیر میں اضافہ کا باعث بن رہی ہیں۔
اس طرح کراچی میں صوبائی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد 44 ہوجائے گی جبکہ پہلے 42 تھیں، کراچی کے ڈسٹرکٹ سینٹرل کی 2 نشستیں کم ہو کر ڈسٹرکٹ ویسٹ میں منتقل ہوجائیں گی جبکہ ڈسٹرکٹ ساؤتھ کی ایک نشست کم ہو کر ڈسٹرکٹ ایسٹ میں ٹرانسفر ہوجائے گی، ڈسٹرکٹ شکارپور بھی ایک نشست سے محروم ہورہا ہے جس سے خیرپور میں ایک نشست کا اضافہ ہوجائے گا۔
حلقہ بندی کے دو مراحل میں الیکشن کمیشن کا صوابدیدی اختیار
آئندہ عام انتخابات کیلئے ملک بھر میں حلقہ بندیوں کی تشکیل آخری مراحل میں ہے، یہ حلقہ بندیاں 2017ء میں ہونے والی مردم شماری کے تحت 3 مراحل میں طے کی جارہی ہیں، پہلے مرحلے میں قومی اسمبلی اور سینیٹ میں دو تہائی اکثریت سے آئینی ترمیم کی گئی جس کے تحت قومی اسمبلی کی مجموعی نشستوں میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا اور آبادی کی بنیاد پر صوبوں، فاٹا اور اسلام آباد میں یہ نشستیں تعین کردی گئیں، دوسرا اور تیسرا مرحلہ الیکشن کمیشن نے وضع کیا۔
دوسرے مرحلے میں صوبے کی آبادی کے تحت اضلاع میں نشستیں تقسیم کی گئیں جبکہ تیسرے مرحلے میں اضلاع کی آبادی کی بنیاد پر حلقہ بندیاں تشکیل دی جارہی ہیں، الیکشن کمیشن کے متعلقہ افسران کا کہنا ہے کہ آئینی ترمیمی بل کے ذریعے جو گائیڈ لائن وضع کی گئی ہے الیکشن کمیشن اس کے تحت حلقہ بندیاں تشکیل دے رہا ہے۔
ملک میں آئندہ انتخابات کے انعقاد کیلئے نئی حلقہ بندیاں 2017ء کی مردم شماری کے تحت 3 مراحل میں طے کی جارہی ہیں، پہلا مرحلہ میں نئی حلقہ بندیوں کیلئے ترمیمی بل 2017ء کے تحت قومی اسمبلی کی مجموعی نشستوں میں اضافہ نہیں کیا گیا تاہم آبادی میں گروتھ ریٹ (شرح نمو) میں کمی کی بنیاد پر پنجاب کی 7 جنرل نشستیں اور خواتین کی 2 مخصوص نشستیں کم ہوگئیں، یہ نشستیں اسلام آباد، خیبرپختونخوا اور بلوچستان منتقل کردی گئیں۔
اسلام آباد میں ایک جنرل نشست، خیبرپختونخوا میں 4 جنرل نشست اور ایک خواتین نشست، بلوچستان میں 2 جنرل اور ایک خواتین کی نشست میں اضافہ ہوگیا، جنرل نشستوں کی تقسیم کیلئے جو طریقہ کار وضع کیا گیا ہے اس میں ماضی کی طرح فاٹا کی آبادی و نشستوں کو مائنس کر کے فی نشست آبادی کا تناسب طے کیا گیا ہے، جو فی نشست 7 لاکھ 79 ہزار 896 آبادی پر مشتمل ہے، اس فارمولے کے تحت فاٹا کی 12 نشستوں کو مائنس کر کے ملک میں قومی اسمبلی کی جنرل نشستیں 260 بنتی ہیں۔
فاٹا کو مائنس کر کے ملک بھر کی آبادی 20 کروڑ 27 لاکھ 12 ہزار 944 بنتی ہے، اس آبادی کو جب 260 سے تقسیم کیا جائے گا تو تناسب فی نشست 7 لاکھ 79 ہزار 896 بنے گا، اس تناسب سے صوبوں اور اسلام آباد کی آبادی کو تقسیم کر کے قومی اسمبلی کی نشستیں متعین کی گئیں جس کے تحت پنجاب میں قومی اسمبلی کی موجودہ جنرل نشستیں 141 ہوگئیں جو پہلے 148 تھیں۔ خیبرپختونخوا میں 39 نشستوں کا کوٹا دیا گیا جبکہ پہلے 35 تھیں، بلوچستان میں 16 نشستیں کردی گئیں جو پہلے 14 تھیں۔
اسلام آباد میں 3 نشستیں تفویض کردی گئیں جو پہلے 2 تھیں، سندھ میں بدستور 61 نشستیں ہی رہیں، فاٹا میں قومی اسمبلی کی نشست کیلئے آبادی کا تناسب 4 لاکھ 16 ہزار 806 رکھا گیا ہے جس کے تحت فاٹا میں قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد 12 بنتی ہے، فاٹا میں پہلے بھی 12 نشستیں تھیں۔ الیکشن کمیشن کے متعلقہ افسران نے بتایا کہ آئینی ترمیمی بل کے ذریعے جو گائیڈ لائن وضع کی گئی ہے الیکشن کمیشن اس کے تحت حلقہ بندیاں تشکیل دے رہا ہے۔
پہلا مرحلہ آئینی ترمیمی بل کے ذریعے مکمل ہوا جبکہ بقیہ 2 مراحل الیکشن کمیشن نے اپنے صوابدیدی اختیارات کی بنیاد پر تشکیل دیئے، پہلے مرحلے میں 272 جنرل نشستوں کو صوبوں، اسلام آباد اور فاٹا میں آئینی ترمیم کے مطابق تقسیم کیا گیا، دوسرے مرحلے میں صوبوں، فاٹا اور اسلام آباد کی آبادی کی بنیاد پر ان کے اضلاع میں نشستیں تقسیم کی گئیں ہیں جبکہ تیسرے مرحلے میں ڈسٹرکٹ کی سطح پر حلقہ بندیاں زیرتشکیل ہیں، دوسرے مرحلے کے تحت جو فارمولا طے کیا گیا۔
اس میں صوبوں، اسلام آباد اور فاٹا کو ملنے والی قومی اسمبلی کی نشستوں کا کوٹا آبادیوں سے تقسیم کیا جائے گا اور جو تناسب آئے گا اس کے ذریعے اضلاع میں نشستیں تقسیم کی جائیں گی، اس اصول کے تحت 2017ء کی مردم شماری کے تحت خیبرپختونخوا کی آبادی 3 کروڑ 5 لاکھ 23 ہزار 371 ہے جس سے کے پی کے میں ملنے والی قومی اسمبلی کی جنرل نشستوں کی تعداد 39 سے تقسیم کریں گے جس کے تحت قومی اسمبلی فی نشست پر آبادی 7 لاکھ 82 ہزار 650 ہوگی اور اس تناسب کے ذریعے کے پی کے کے اضلاع میں حلقہ بندیوں کی تقسیم ہوگی۔
پنجاب کے اضلاع میں فی نشست 7 لاکھ 80 ہزار 230 آبادی رکھی گئی ہے، سندھ میں قومی اسمبلی فی نشست 7 لاکھ 85 ہزار 17 ہوگی، بلوچستان 7 لاکھ 71 ہزار 526، اسلام آباد 6لاکھ 68 ہزار 857 اور فاٹا میں 4 لاکھ 16 ہزار 806 فی نشست آبادی کا تناسب ہوگا، الیکشن کمیشن کے افسران کے مطابق تیسرا مرحلہ انتہائی اہم ہے جس میں حلقہ بندیوں کی باقاعدہ تشکیل دی جائے گی، اس مرحلے میں ضلع کی آبادی کو ضلع کی مجموعی نشستوں سے تقسیم کریں گے جو تناسب آئے گا اس پر فی نشست حلقہ بندی کی جائے گی۔
افسران کے مطابق اس مرتبہ پہلی بار حلقہ بندیوں میں اضلاع کے درمیان اورلپپنگ نہیں ہوگی، ہر ضلع کو ملنے والی نشستوں کی حلقہ بندی اسی ضلع کی حدود میں کی جائے گی، صرف ان علاقوں میں جہاں آبادی بہت کم ہوگی وہاں ڈسٹرکٹ کی باؤنڈری سے تجاوز کیا جاسکتا ہے، ایک ضلع میں اگر 2 نشستیں ہیں ان کے درمیان حلقہ بندیوں کی تشکیل میں 10 فیصد آبادی میں کمی بیشی کی جاسکتی ہے، غیرمعمولی کیسز میں آبادی 10 فیصد سے زیادہ رکھی جائے گی، دونوں صورتِ حال میں الیکشن کمیشن کو ٹھوس وجوہ ظاہر کرنی ہوں گی۔

مطلقہ خبریں

غزل

غزل

غزل