وقت کی ضرورت یہ ہے کہ پھر سے پاکستان کے قیام کی بنیاد کو اپنا کر اِس ملک، صوبہ اور شہر کراچی کو تہذیب و تمدن کا گہوارہ بنائیں
طارق شاداب
بلدیاتی انتخاب میں آندھی چلی، پھر 1988ء میں ایک طوفان آیا، بڑے بڑے برج گرگئے، ایوانوں کے چاروں طرف حق پرست کا نعرہ کامیاب ہوگیا، بلدیاتی، صوبائی، وفاقی کابینہ، سینیٹ میں مہاجر قیادت بھرپور طور پر شامل ہوگئی لیکن پہلے مرحلے میں ہی انتخابی منشور پر گرفت کمزور ثابت ہوئی، پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نے مہاجر قوم پرست قیادت کو کم قیمت پر اپنے اقتدار کیلئے استعمال کیا، کوٹہ سسٹم ختم نہیں ہوا، انتظامیہ میں برابر کی شراکت نہیں ملی، محصورین بنگلہ دیش کی واپسی کے مطالبہ سے دستبردار ہوگئے، جنرل پرویز مشرف کی آمریت میں ایک بار پھر مہاجر قوم پرست قیادت بلاشرکت غیرحکومت کا اہم حصہ بن گئی، ریکارڈ فنڈز کے ساتھ حکومت سندھ پر مکمل اختیارات کے ساتھ اقتدار نے طویل المدت گورنر سندھ کا اعزاز حاصل کیا۔ زرداری نے بھی مشروط طور پر کھل کر موقع دیا۔ مگر مہاجر منشور کے جذباتی نعرے دفن ہوگئے۔ لوٹ مار، منی لانڈرنگ، بھتہ خوری، چائنا کٹنگ، اغوا، بوری بند لاشیں، ٹارچر سیل، ہڑتالوں نے کراچی کو برباد کردیا۔ صنعت، تجارت، تعلیم، صحت، ٹرانسپورٹ کے مسائل کی وجہ سے سرمایہ دوسرے صوبوں میں منتقل ہوگیا۔ ان تیس سالوں میں عالمی حالات سے فائدہ اٹھا کر مافیا نے کراچی کی دولت کو دل کھول کر لوٹا، لندن، امریکا، ساؤتھ افریقہ، کینیڈا، متحدہ عرب امارت میں جاگیریں بن گئیں، کل کے کنگال آج کے مالدار ہیں۔ اس قوم پرست سیاست نے عام مہاجر کو کیا دیا؟ گنجے، ٹیڈی، کن کٹا، بارود، پجامے، لنگڑے، نفسیاتی، ٹی ٹی، پہاڑی، لمبو، کالیا، گیدڑ، بھرم باز جیسے ناموں نے شہر کراچی کی تہذیب و ثقافت کو داغدار کردیا۔ ایک وقت میں جب کہیں اپنے اندر سے بغاوت کے آثار پیدا ہوئے، بلیک میل کرکے ریاست کی طاقت سے باغیوں کی صفائی کردی گئی، دنیا جانتی ہے کہ خود مار کر رونے اور شور مچانے کا یہ کھیل کس طرح کھیلا جاتا تھا۔ پھر ایک موقع پر جینے کی ضمانت۔ جس کا باپ ایک اس کا قائد ایک۔ کے حلف پر دی جانے لگی۔ احساس زیاں کی معمولی رمق ابھی بیدار ہوئی ہے کہ غدار کی باقیات کے مفرور بھگوڑے پون انچ کے بونے چرب زبان میراثی مداری نیا جال پھیلا رہے ہیں، جس پیپلزپارٹی کے ساتھ معاہدوں کی زنجیر میں مہاجر حقوق قید کئے اس کی ضرورت پر نوراکشتی کا دنگل سجانے کی تیاریاں ہیں تاکہ حالات پسے بے حال عوام کے خون کا آخری قطرہ بھی چوس لیا جائے۔ یہ مردار خور گدھ کمزور نظام کی وجہ سے آزاد ہیں، 12 مئی طاہر پلازہ میں زندہ انسانوں کو جلانے والے یہ مجرم کسی کے ہمدرد نہیں ہوسکتے، ان کا راستہ صرف قبرستان کی طرف جاتا ہے۔ یاد رکھیں مفہوم ہجرت دوقومی نظریہ ہے، مہاجر بانیان پاکستان ہیں، قومی دھارے میں شامل ہو کر ہی ہم حقوق حاصل کرسکتے ہیں۔ وقت کی ضرورت یہ ہے کہ پھر سے پاکستان کے قیام کی بنیاد کو اپنا کر اِس ملک، صوبہ اور شہر کراچی کو تہذیب و تمدن کا گہوارہ بنائیں، اس کے لئے کراچی کے دانشوروں، صاحب ِفکر، صاحب ِحیثیت اور ہر فرد کو متحد ہونا پڑے گا اور یکسو ہو کر کام کرنا پڑے گا، اس کے لئے ہمیں بڑی جدوجہد کرنا ہوگی، جس کے لئے ہمیں تیاری کرنا چاہئے اور کسی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہئے، ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ۔ پاکستان زندہ باد