فردوس سے آسیہ بننے والی پنجابی فلموں کی ملکہ کی سرگزشت
خالد ابراہیم خان
پاکستان فلم انڈسٹری کی نامور ہیروئنوں میں ایک اہم اور بڑا نام اداکارہ آسیہ کا بھی ہے۔ آسیہ نے فلم انڈسٹری پر تقریباً دو دہائی تک راج کیا۔ آسیہ کا گھریلو نام فردوس تھا مگر گھر میں اسے سب رانی کے نام سے پکارا کرتے تھے۔ فردوس اور رانی نام کی دو بڑی اداکاراؤں نے بھی پاکستان فلم انڈسٹری پر بھرپور راج کیا۔ نامور ڈائریکٹر اور پروڈیوسر ریاض شاہد نے اپنی فلم ”غرناطہ“ کے لئے پہلی مرتبہ آسیہ کو کاسٹ کیا تھا۔ اس وقت آسیہ ایک گمنام سی لڑکی تھی مگر دبلی پتلی، گورا رنگ اور تیکھے نین نقش کی یہ لڑکی فلم ”غرناطہ“ کے ایک کردار میں بہت فٹ رہی۔ ”غرناطہ“ میں اس وقت کے نامور اداکار اقبال حسن، علاؤ الدین اور آغا طالش جیسے نامور فنکار شامل تھے جبکہ ایک نیا ہیرو جمیل (تبو اور فرح کا والد) بھی کاسٹ کیا گیا تھا جو بعدازاں لاہور سے بھارت کے شہر ممبئی جا کر بس گیا۔
اداکارہ آسیہ 1951ء میں بھارت کی ریاست پنجاب میں پیدا ہوئیں۔ بعدازاں ان کا خاندان لاہور آ گیا۔ آسیہ کو بچپن سے ہی فن اداکاری اور میوزک سے بے پناہ دلچسپی تھی لہٰذا فلم کا میدان چنا۔ آسیہ نے باقاعدہ رقص کی تربیت حاصل کی جبکہ دیگر بنیادی رموز میں بھی دسترس حاصل کی۔ آسیہ کے فلمی کیریئر کا آغاز 1970ء میں ہوا۔ ان کی ریلیز ہونے والی ابتدائی فلم ”چراغ کہاں روشنی کہاں“ تھی۔ اس میں آسیہ نے ایک کلب ڈانسر کا کردار ادا کیا تھا جو فلم بینوں نے بہت پسند کیا، فلم کے ہدایتکار کے خورشید تھے۔ یہ فلم اداکار قوی خان کے فلمی کیریئر کی بھی ایک اہم اور منفرد فلم تھی۔ 1971ء میں اداکار، فلمساز اور ہدایتکار رنگیلا کی فلم ”دل اور دنیا“ ریلیز ہوئی جس میں آسیہ کے ایک پھول بیچنے والی اندھی لڑکی کی پرفارمنس نے دھوم مچا دی اور یہ اداکارہ آسیہ کی بطور ہیروئن پہلی کامیاب فلم ثابت ہوئی۔ فلم نے 52 ہفتے مسلسل کامیابی حاصل کرکے گولڈن جوبلی کا درجہ حاصل کیا تھا۔ فلم میں آسیہ کا ڈبل رول تھا۔ انہوں نے اُردو، پنجابی کی تقریباً 200 فلموں میں لگاتار کام کیا۔ اداکار و فلمساز اسد بخاری کی فلم ”اکیلا“ اور پھر ہدایتکار ظفر شباب کی فلم ”میں بھی انسان ہوں“ میں اداکار شاہد کی ہیروئن بنیں۔ ہدایتکار حسن طارق نے فلم ”امراؤ جان ادا“ میں رانی جیسی باصلاحیت اداکارہ کے ہمراہ آسیہ کو اہم کردار دیا جو بے پناہ پسند کیا گیا۔ پھر آسیہ کی پنجابی فلم ”سسی پنوں“، دو تصویریں“، ”سہرے کے پھول“، ”دو رنگیلے“ بھی قابل ذکر فلمیں ہیں۔ ”تم سلامت رہو“ میں اداکار محمد علی اور وحید مراد جیسے بڑے اداکاروں کے ہمراہ آسیہ نے بطور ہیروئن اور پرفارمر انمٹ نقوش چھوڑے۔ آسیہ نے اقبال حسن، اعجاز، یوسف خان، وحید مراد، ندیم، محمد علی، شاہد، سلطان راہی، منور ظریف اور رنگیلا سمیت دیگر کے ہمراہ بھرپور کام کیا۔ 1974ء میں آسیہ کی ایک برس میں 15 پنجابی فلمیں ریلیز ہوئیں جو ایک ریکارڈ تھا۔ پھر 1975ء میں آسیہ کی 20 نئی فلموں کی نمائش ہوئی۔ 1976ء میں آسیہ کی 25 اُردو پنجابی فلموں کی نمائش ہوئی۔ یوں آسیہ تیزی سے آگے بڑھتی رہی۔ آسیہ نے ہدایتکار اسلم ڈار کی فلم ”وعدہ“ میں بدستور معیاری پرفارمنس دے کر اپنے آپ کو منوایا۔ ہدایتکار شیون رضوی کی اُردو فلم ”محبوب میرا مستانہ“ میں چاکلیٹی وحید مراد کے ہمراہ فلم بینوں نے اس جوڑی کو بہت پسند کیا مگر فلم زیادہ کامیاب نہ ہوسکی۔ آسیہ کو پنجابی فلموں میں بہت پسند کیا جاتا تھا، انہیں ہدایتکار حسن عسکری نے پنجابی فلم ”طوفان“ میں جب سلطان راہی کے ہمراہ کاسٹ کیا تو دونوں کی جوڑی اور آسیہ کی پرفارمنس بہت پسند کی گئی۔ ہدایتکار کیفی مرحوم کی فلم ”جگا گجر“ میں آسیہ نے ایک جٹی کا کردار ادا کیا تو یہ فلم سپرڈوپر ہٹ ہوگئی۔ پھر آسیہ اور سلطان راہی کی جوڑی ہٹ ہوگئی اور ہر ڈائریکٹر نے دونوں کو ترجیحی بنیادوں پر کاسٹ کرنا شروع کردیا۔ آسیہ نے جب 1979ء میں ہدایتکار یونس ملک اور فلمساز سرور بھٹی کی پنجابی فلم ”مولا جٹ“ میں مُکھوجٹی کا کردار ادا کیا تو گویا فلم بین حیران ہی رہ گئے۔ جٹی کا ایسا بھرپور اور حقیقت سے مزین کردار اس سے پہلے اتنی زبردست پرفارمنس کے ساتھ کسی نے ادا نہ کیا تھا۔ آسیہ نے اپنے خالص پنجابی لب و لہجے سے مداحوں کے دل جیت لئے۔ ان کے مکالموں کی کڑک اور چال کی دھڑک کون فراموش کرسکتا ہے۔ حال ہی میں اسی فلم کا ری میک بنا اور ایک نامور اداکارہ نے مکھوجٹی کا کردار نبھایا۔ یہ نئی فلم کروڑوں روپے کمانے کے باوجود ہمیں پنجاب کی جٹی سے روشناس نہ کرا سکی۔ یہاں تو مکھوجٹی کے منہ میں گویا زبان ہی نہ تھی اس لئے کہ ایک اُردو بولنے والی اداکارہ آسیہ کے کردار کی جگہ کیسے لے سکتی ہے۔ جن لوگوں نے اصل مولا جٹ اور اس کے کرداروں کی آن بان دیکھی وہ محض سنیماٹوگرافی کی بنیاد پہ دھاک بٹھانے والے اس ری میک سے کیسے مطمئن ہوسکتے ہیں۔ آسیہ کی مولا جٹ طویل عرصہ لاہور سمیت سرکٹ بھر میں عوام کی توجہ کا مرکز بنی رہی۔ اس فلم نے آسیہ سمیت اداکارہ چکوری، مصطفی قریشی، کیفی و دیگر اداکاروں کو بھی عوام میں امرکردیا۔ ایسی پھرپور جٹی پھر کسی فلم میں نظر نہ آئی۔ پھر ہدایتکار حیدر چوہدری کی ”حشرنشر“ میں یوسف خان کے ہمراہ آسیہ کو بے حد پسند کیا گیا۔ حیدر چوہدری نے ایک پنجابی فلم ”وارنٹ“ میں آسیہ کو یوسف خان کے ہمراہ کاسٹ کیا۔ یہ فلم بھی یوسف خان اور آسیہ کی خوبصورت پرفارمنس اور مدھر موسیقی کی وجہ سے عوام نے بہت پسند کی۔ اداکار سلطان راہی اور آسیہ کی جوڑی 1989ء تک ریلیز ہونے والی ”میری ہتھ جوڑی“ تک بہت مقبول رہی۔ اسی دوران آسیہ کی کراچی کے ایک سونے کے تاجر فاروق کے ہمراہ شادی ہوگئی اور پھر وہ فیملی کے ہمراہ کینیڈا منتقل ہوگئیں۔ اس دوران ان کی فلم ”آگ“ ریلیز ہونے والی آخری فلم تھی۔ آسیہ کی فاروق سے شادی اختلافات کا شکار رہی۔ آسیہ کے چہرے پر معصومیت اور مشرقی لڑکیوں کا حسن بہت نمایاں تھا اسی لئے اس کی اُردو فلم ”سہرے کے پھول“، ”دل اور دنیا“، ”وعدہ“ اور دیگر فلموں میں اس کی پرفارمنس کو بے پناہ پسند کیا گیا، وہ سیٹ پرآکر اپنی ساری توانائی صرف اپنے کام پر صرف کرتی تھیں، ساری عمر ان کا کوئی اسکینڈل منظرعام پر نہ آیا، وہ اپنی ہم عصر اداکاراؤں سے اسکرین پر مقابلہ کرنے کی قائل تھیں، اپنے سینئرز کی بے پناہ قدر اور احترام کرتی تھیں، آسیہ نے ”انسان اور آدمی“، ”روڈ ٹو سوات“، ”انوکھاداج“، ”جوگی“، ”دل دیوانہ“، ”نوکر ووہٹی دا“، ”شریف بدمعاش“ اور ”لاہوری بدمعاش“ میں بہترین پرفارمنس کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے نگار، گریجویٹ اور دیگر بہت سے ایوارڈ حاصل کئے۔ ان کی اداکارہ رانی، عالیہ اور انجمن سمیت تمام اداکاراؤں سے بھرپور دوستی تھی۔ اداکار منورظریف کے ہمراہ ”شوکن میلے دی“، ”نوکر ووہٹی دا“، ”شیدا پستول“، ”جانوکپتی“ اور ”بدتمیز“ میں خوبصورت پرفارمنس کا مظاہرہ کیا، آسیہ کا فلمی نام نازنین بھی رکھا گیا تھا مگر فلم ”انسان اور آدمی“ کی ریلیز پر پھر آسیہ ہی نام متعارف ہوا جو اس کیلئے خوش بختی کی علامت بنا۔ وہ رومانی کردار ادا کرنے میں منفرد مہارت رکھتی تھی۔ آسیہ نے اپنے دور کی نامور ہیروئنوں کے درمیان اپنی انفرادی شناخت بنائی تھی جو طویل عرصہ قائم رہی۔ آسیہ کے فلمی کیریئر کی ابتدا اردو فلموں سے ہوئی تھی مگر بعدازاں وہ پنجابی فلموں کی ضرورت بن گئی اسی لئے اس کے کریڈٹ پر پنجابی فلموں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ آسیہ کے فنی کیریئر میں فلم ”تم سلامت رہو“ میں اس کا مشرقی لڑکی شازیہ کا کردار جو خالصتاً رومانی اور جذباتی نوعیت کا تھا، عوام نے بہت پسند کیا تھا۔ فلم میں شاعر مسرور انور کا لکھا ہوا گانا ”محبت زندگی ہے اور تم میری محبت ہو“ اداکار وحید مراد کے ہمراہ بہت ہٹ ہوا تھا۔ آسیہ کا گانا پکچرائز کرانے کا بھی منفرد انداز تھا۔ وہ اپنے کردار میں ڈوب جایا کرتی تھی۔ اسی طرح اس کی ایک اردو فلم ”سہرے کے پھول“ ندیم کے ہمراہ لازوال پرفارمنس کی بے مثال فلم تھی۔ اس فلم میں مہدی حسن کا گایا ہوا گانا ”آج تک یاد ہے وہ پیار کا منظر مجھ کو، جس کی تصویر نگاہوں میں لئے پھرتا ہوں“ آسیہ کی پرفارمنس اور ندیم کے ساتھ ایک سپرہٹ گانا تھا۔ اسے رقص میں بھی بھرپور مہارت تھی۔ آسیہ نے بطور فلم ساز ایک اردو فلم ”پیار ہی پیار“ بھی بنائی تھی۔ ان کے ہمراہ وحید مراد ہیرو تھے۔ فلم کامیاب رہی۔ آسیہ نے اپنے دور کے نامور ڈائریکٹرز کے ہمراہ کام کیا اور ہر ہدایتکار سے اسے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ ان میں ہدایتکار حسن عسکری کے ہمراہ فلمیں ”وحشی جٹ، طوفان، آخری میدان، پانی، نیلام، یارانہ، ریشماں جوان ہوگئی، یار دا سہرہ، شریف بدمعاش، سردار اور رستم“ میں اسے پسند کیا گیا۔ ہدایتکار اسلم ڈار کی فلموں میں ”وعدہ، بڑے میاں دیوانے، گوگا اور انوکھا داج“ نمایاں رہیں۔ ہدایتکار حیدر چوہدری کے ہمراہ ”وارنٹ، حشر نشر“، شباب کیرانوی کے ہمراہ ”انسان اور آدمی“ کی ہدایتکار ایم اے رشید کے ہمراہ ”تیرا غم رہے سلامت“ کی، دیگر ہدایتکاروں میں یونس ملک کیفی، مسعود بٹ، وحید ڈار، اقبال کشمیری اور اقبال یوسف شامل تھے۔ آسیہ نے اپنے دور کے دو بڑے اداکاروں محمد علی، ندیم اور وحید مراد کے ہمراہ جن فلموں میں کام کیا وہ بہت یادگار رہا۔ ان فلموں میں ندیم کے ہمراہ فلم ”چراغ کہاں روشنی کہاں، سہرے کے پھول، پرائی آگ، پازیب، دو تصویریں، بڑے میاں دیوانے اور پرنس“ شامل ہیں۔ اداکار محمد علی کے ہمراہ ”انسان اور آدمی، یادیں تم سلامت رہو، پہلی نظر، جینے کی راہ اور آگ“ شامل ہیں۔ اداکار وحید مراد کے ہمراہ پیار ہی پیار، محبوب میرا مستانہ، وعدہ، تم سلامت رہو وغیرہ شامل ہیں۔ اپنے دور کے صاحب طرز فلمسازوں اور ہدایتکاروں نے فلموں کیلئے جہاں بامقصد، اچھوتے اور تاریخی نوعیت کے موضوعات اور کرداروں کا انتخاب کیا وہاں ان کرداروں کو پرفارم کرنے والے باصلاحیت اداکاروں کو بھی متعارف کرایا۔ اداکارہ آسیہ بھی ان درجنوں اداکاروں میں منفرد اداکارہ تھیں۔ آسیہ جب رنگیلا کی فلم ”دل اور دنیا“ میں کام کررہی تھیں اس موقع ایک واقعہ یوں پیش آیا کہ آسیہ، اداکارہ نیناں اور رنگیلا پر ایک منظر عکسبند کیا جا رہا تھا۔ منظر میں سیٹ پر آسیہ بال بکھیرے ٹٹول ٹٹول کر چلتے ہوئے المیہ مکالمے ادا کررہی تھیں۔ جب وہ مکالمے ختم کرچکیں تو رنگیلا نیناں سے مخاطب ہو کر بولے ”ماں نہ جانے گوری کیا کہہ گئی ہے میری تو سمجھ میں کچھ نہیں آیا، یہ کہہ کر رنگیلا سیٹ پر بنے ہوئے باورچی خانے میں چلے گئے اور کھانا تلاش کرنے لگے کیونکہ انہیں بھوک لگی ہوئی تھی۔ جب انہیں کھانا نہ ملا تو ماں سے مخاطب ہو کر بولے ”ماں نہ چولہے میں سالن نہ ہانڈی میں آگ کیا آج بھوک ہڑتال کرنے کا ارادہ ہے؟ رنگیلا کے یہ مکالمے سن کر آسیہ اور نیناں سمیت سیٹ پر موجود تمام فنکاروں اور ہنرمندوں نے بمشکل اپنی ہنسی روکی۔ جب سیٹ پر فلم کی شوٹنگ ختم ہوئی تو معلوم ہوا کہ ”دل اور دنیا“ میں نیناں کی جگہ آسیہ ہیروئن کا کردار ادا کررہی ہے۔ یہ ایک اندھی لڑکی کا کردار تھا جو آسیہ کسی فلم میں کرنا چاہتی تھیں۔ لہٰذا ان کی نہ صرف یہ خواہش پوری ہوئی بلکہ فلم کی بھرپور کامیابی نے آسیہ کو بے پناہ مصروف کردیا۔ آسیہ نے اپنے 20 سال کے فنی کیریئر میں اداکاری کے سیکڑوں ریکارڈ قائم کئے اور اردو، پنجابی فلموں میں بیک وقت اپنے آپ کو بھرپور طریقے سے منوایا۔ وہ فلم کے علاوہ اسٹیج ڈراموں، ریڈیو، ٹی وی یا کسی اور شعبے میں نہ گئیں۔ وہ صرف فلموں کیلئے پیدا ہوئی تھیں اور فلموں میں ہی کام کرتے کرتے وہ شادی کرکے انڈسٹری سے دور ہوگئیں۔ آسیہ کا ایک بیٹا اور دو بیٹیاں کینیڈا میں مقیم ہیں جبکہ 2013ء میں 60 برس کی عمر میں کینسر کے مرض کے باعث کینیڈا میں انتقال کر گئیں۔ یوں بے شمار یادوں کے ہمراہ آسیہ کی زندگی کا باب ختم ہوگیا۔