جاوید احمد خان
دُنیا میں جتنی ایجادات ہوتی ہیں وہ عموماً انسان کے فائدے ہی کیلئے ہوتی ہیں، سوائے جنگی ہتھیاروں کے، اس میں بھی اختلاف رائے ہے کہ دُنیا میں جتنے بھی جدید ہتھیار بن رہے ہیں، وہ انسانیت کی تباہی کیلئے ہیں لیکن ایک رائے یہ بھی ہے کہ دنیا میں اس وقت جو امن قائم ہے وہ ان ہی جدید ہتھیاروں کی وجہ سے ہے جس کو ہم ایٹمی امن کا نام دے سکتے ہیں۔ اگر یہ ہتھیار کہیں استعمال ہوگئے تو کیا تباہی ہوگی اس کا اندازہ جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگا ساکی، کی تباہی سے کرسکتے ہیں کہ جب امریکا نے ان دو شہروں میں ایٹم بم پھینکا تو آن واحد میں لاکھوں افراد لقمہ اجل بن گئے۔ اب تو ان سے کہیں زیادہ تباہ کن ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم بن چکے جو پانچ منٹ میں پوری دُنیا کو ختم کرسکتے ہیں۔ خدا نہ کرے وہ وقت آئے، ہم بات کررہے تھے ان ایجادات کی جس سے عام لوگوں کو فائدہ پہنچا ہے اس میں سب سے پہلے تو پہیے کی ایجاد پھر بجلی، بلب، ٹیلی فون اور اسی طرح کی دیگر کام کیلئے مشینوں کی ایجادات نے جہاں یہ کام کیا کہ جو کام 10 افراد 10 گھنٹے میں کرتے تھے وہی کام مشین ایک گھنٹے میں انجام دینے لگی، 10 افراد کی جگہ ایک فرد مشین آپریٹر بن گیا بقیہ 9 افراد بے کار ہوگئے، لہٰذا ان ایجادات کا ایک نقصان تو یہ ہوا کہ بہت بڑی تعداد میں دُنیا میں بے روزگاری پھیل گئی۔ ہم بات کررہے تھے موبائل فون کے فائدے اور نقصان کی دفاتر میں تو کمپیوٹرز استعمال ہوتے ہیں اور کمپیوٹر کے بہت سارے آپشنز اب موبائل فون میں آگئے، اب آپ گھر بیٹھے اپنے یوٹیلیٹی بلز ادا کرسکتے ہیں، اسی طرح اور بہت سے کام ہیں جو گھر بیٹھے آپ اپنے موبائل فون سے کرسکتے ہیں، آن لائن خریداری سے لے کر بینک سے لون حاصل کرنے تک، ہمارا آ ج کا موضوع موبائل فون کے نقصانات کے حوالے سے ہے تو موبائل فون کے دو قسم کے نقصانات سامنے آئے ہیں جس میں بہت ساری صنعتوں کا کم ہوجانا یا ختم ہوجانا شامل ہے اور دوسرا اس کا اخلاقی نقصان جس نے ہمارے معاشرے کو تباہی و بربادی کے راستے پر ڈال دیا ہے۔ میری تمام والدین سے دست بستہ گزارش ہوگی کہ وہ اپنے بچوں کو موبائل سے دور رکھیں۔ اگر ایسا نہ کرسکیں تو دوسرا قدم یہ ہے کہ بچوں پر چیک رکھیں، یہ بظاہر بہت مشکل کام ہے لیکن ہمیں اگر اپنی آئندہ نسلوں کو بچانا ہے تو یہ کام کرنا پڑے گا۔ ہمارے بچپن میں تقریباً ہر گھر میں ایک ٹارچ ہوتی تھی یہ اس وقت کی بات ہے جب ہمارے گھروں میں بجلی نہیں آئی تھی، لالٹین اور چراغ کا دور تھا گھر کے بڑے اپنے پاس ٹارچ رکھ کر سوتے تھے کہ رات بے رات کوئی اچانک ضرورت پڑ جائے تو یہ ٹارچ کام میں آجاتی تھی، اس کا چھوٹا سائز بھی آتا تھا جو رات کی ڈیوٹی کرنے والے اپنی جیب میں رکھتے تھے، اب ظاہر ہے کہ جس چیز کی جتنے بڑے پیمانے پر ضرورت ہے اسی طلب کو پورا کرنے کیلئے اس کی فیکٹریاں ہوں گی، ہزاروں لوگ اس روزگار سے وابستہ تھے، کچھ تو اس میں کمی بجلی آنے کے بعد ہوئی لیکن اب موبائل میں ٹارچ ہونے کی وجہ سے ٹارچ کی صنعت بالکل ختم ہوگئی۔ اب سے تیس چالیس سال قبل ہم صدر یا بندر روڈ جاتے تھے تو گھڑیوں کی بڑی بڑی دکانیں سجی سجائی چمکتی ہوئی نظر آتی تھیں جن میں ہزاروں لوگ ملازم ہوتے تھے پھر باہر سے آنے والی گھڑیاں پھر ان کے مختلف برانڈ ہوتے، موبائل نے اب گھڑیاں خریدنے کے رجحان کو بہت کم کردیا۔ ایک زمانے میں نماز فجر میں اُٹھنے کیلئے ہم الارم والی گھڑی لائے، الارم لگا کر سوتے تو کبھی تو الارم سے آنکھ کھل جاتی اور کبھی ایسا بھی ہوتا کہ الارم بج کر ختم ہوجاتا اور پڑے سوتے رہتے۔ پھر موبائل کے الارم میں یہ خوبی نظر آئی کہ یہ نماز کیلئے اٹھا کر ہی چھوڑتا، ابتدا میں تو ہلکی ٹون ہوتی پھر اس سے کچھ زیادہ کہ اب بھی شرافت سے اُٹھ جاؤ، یہ بیل ہر دفعہ پہلے سے زیادہ ٹون میں بجتی رہتی تاآنکہ ہم اُٹھ کر اس کی بیل کو بند کردیں، اس طرح ہمیں نماز مل جاتی، اب ان الارم والی گھڑیوں کی ضرورت بھی موبائل کی وجہ سے باقی نہ رہی۔ کیلکولیٹر بھی اب موبائل میں آچکا جس سے ہزاروں لاکھوں کا حساب کرسکتے ہیں۔ اگر ہم نظر دوڑائیں تو اور بہت سی چیزیں ہوگیں جو اس چھوٹی سی ڈبیا میں بند ہے۔ ریڈیو کی اہمیت ختم ہوگئی ٹیپ ریکارڈ کو اب کوئی پوچھتا ہی نہیں۔ ایک وقت تھا کہ گانوں کے شوقین گرامو فون رکھتے تھے اور اب یوٹیوب میں جاکر گانے کے بول لکھ دیں لکھنا نہ آتا ہو تو منہ قریب لے جا کر اس کو زبانی بول دیں وہ آپ کے حکم کی اطاعت کرے گا۔ اس طرح بے شمار صنعتیں بند ہوگئیں۔ اس حوالے سے اور بھی نکات پر بات ہوسکتی ہے لیکن اب ہم اس کے اخلاقی نقصانات کی بات کرتے ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اس موبائل نے معاشرے میں ابتری اور انتشار پیدا کردیا ہے۔ آپ اخبارات میں کسی بھی جرائم کی تفصیل پڑھیں تو اس کا سرا موبائل فون سے جا کر ملتا ہے۔ فیصل آباد کا اندوہناک واقعہ تو آپ نے اخبارات میں پڑھا ہوگا کہ ایک خاتون کی موبائل پر ایک سفاک شخص سے دوستی ہوگئی جو اتنی آگے بڑھی کہ اس عورت نے اس دوست سے اپنے شوہر کو قتل کرا دیا، کچھ دن بعد اس عورت نے اس سے کہا کہ میرے ساتھ شادی کرو، ہوسکتا ہے پہلے سے یہ بات ان کے درمیان طے ہوچکی ہو لیکن اس قاتل نے یہ سوچ کر شادی سے انکار کردیا کہ یہ جب پہلے شوہر کو مروا سکتی ہے تو میرے ساتھ بھی ایسا ہوسکتا ہے۔ اس عورت کو یہ انکار بہت شاک گزرا، اس نے اس آدمی کو دھمکی دی کہ میں پولیس میں اس قتل کا راز افشا کردوں گی، تم ساری زندگی جیل میں سڑتے رہو گے۔ اس قاتل نے یہ سوچ کر کہ ایک قتل ہوچکا ایک اور سہی، خاتون کو شادی کے سلسلے میں بات چیت کرنے کے لئے کسی مقام پر بلایا، اس عورت کی چھٹی حس نے خطرہ محسوس کیا تو وہ اپنی بہن کو ساتھ لے گئی۔ اس قاتل نے دونوں بہنوں کو قتل کرکے اور دونوں کی لاشوں کو ایک ڈرم میں بند کرکے نہر میں بہا دیا پھر سوچا کہ جن بچوں کے ماں باپ دنیا میں نہیں رہے تو ان کو بھی ان ہی کے پاس پہنچا دیا جائے۔ مقتولہ کے چاروں بچوں کو بے ہوش کیا اور انہیں گدوں میں لپیٹ کر ریل کی پٹری پر رکھ کر فرار ہوگیا۔ کسی نے دیکھ لیا اور ان بچوں کو فوراً لائن سے ہٹایا اور پولیس کے حوالے کیا۔ پولیس نے قاتل کو گرفتار کرلیا، ڈرم سے دونوں کی لاشیں بھی مل گئیں اور کچھ دن بعد اس کے سابقہ شوہر امجد کی لاش بھی مل گئی۔ کراچی کا ایک سانحہ تو ایسا ہے کہ یہاں پر سفاکیت بھی ختم ہوجاتی ہے، 14 اور 16 برس کے دو لڑکوں نے جو ٹک ٹاکر تھے اپنے ٹک ٹاک کو مقبول عام بنانے کے لئے دروازے پر کھڑے ایک بے قصور آدمی کو گولی مار دی وہ گر کر تڑپنے لگا۔ ان لڑکوں نے وہ سارے مناظر اپنے موبائل میں محفوظ کئے اور اس کو وائرل بھی کردیا۔ ایسے بہت سارے واقعات ہیں جس میں پورے کے پورے خاندان تباہ و برباد ہورہے ہیں۔ اس لئے آپ سے جتنا ممکن ہوسکے اپنے بچوں کو موبائل کے منفی استعمال سے روکنے کی کوشش کریں اور اللہ سے دُعا بھی کریں کہ ہم سب کو موبائل کی تباہ کاریوں سے محفوظ فرمائے۔ (آمین)