شہرۂ آفاق فرانسیسی ادیب فرامسوامری والٹیر کا ایک منتخب افسانہ
ایک دن بیٹھے بیٹھے ”ممنون“ نے طے کیا: ”مجھے فلسفی بن جانا چاہئے، اتنا مشہور فلسفی کہ دُنیا میں کوئی اتنا بڑا اور مشہور فلسفی نہ گزرا ہو، ”کامل فلسفی بن جانا مشکل ہی کیا ہے؟ ممنون نے اپنے دل میں کہا ”اگر میں نفس امارہ پر قابو حاصل کرلوں، تمام محرک ومہیجِ جذبات فنا کر ڈالوں تو بس کامل فلسفی بن جاؤں گا۔ نفس کو زیر کرلینا، جذبات کو فنا کر ڈالنا، اس قدر آسان کام ہے کہ اس سے زیادہ آسان کوئی کام نہیں۔ میں کیوں نہ یہ کام ابھی کر ڈالوں؟ کیوں نہ سقراط اور افلاطون کی شہرت و عزت کا مالک بن جاؤں؟“
”سب سے پہلے مجھے یہ فیصلہ کر لینا چاہئے کہ ہرگز دام محبت میں گرفتار نہیں ہوں گا“ ممنون نے کچھ دیر ٹھہر کر پھر کہنا شروع کیا“ میری نگاہ جب کسی حسینہ پر پڑے گی تو فوراً اپنے آپ سے کہوں گا ”خبردار! یہ نازک رسیلے گال عنقریب مرجھا کر خشک ہوجانے والے ہیں۔ یہ جادو بھری آنکھیں جلد اپنے حلقوں کے اندر بیٹھ جانے والی ہیں۔ یہ چھریرا گُدگُدا بدن، یہ سرو اور صنوبر کو شرمانے والا قد، ایک دن ٹیڑھا ہو کر کمان بن جائے گا“۔ ”دوسری بات مجھے یہ کرنی چاہئے کہ ہمیشہ اعتدال پر رہوں گا“ سلسلہ خیال قائم رکھتے ہوئے ممنون نے ذرا زور سے کہا ”ہرگز کوئی افراط یا تفریط نہیں کروں گا۔ کچھ بھی ہوجائے اتنی شراب کبھی نہیں پیوں گا کہ مدہوش ہوجاؤں، بدتمیزی کرنے لگوں، کھانا بھی اتنا ہی کھاؤں گا جتنا میرے جسم کے لئے ضروری ہے۔ یعنی جینے کے لئے کھاؤں گا، کھانے کے لئے نہیں جیوں گا“۔ ”پھر مجھے اپنی پوری زندگی کے لئے ایک قاعدہ مقرر کرلینا چاہئے“ اپنی کامیابی کا یقین کرکے اس نے کہا ”اب میرا خرچ بہت کم ہوجائے گا، کیونکہ میری ضروریات کم سے کم رہ گئی ہیں۔ دولت میرے پاس کافی موجود ہے اور بینک میں ہر طرح محفوظ ہے۔ ظاہر ہے میں کسی کا بھی محتاج نہیں ہوسکتا۔ مجھے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی کیونکہ نہ میں کسی سے حسد کروں گا، نہ کوئی مجھ پر حسد کرے گا۔ یہ بالکل یقینی ہے۔ میرے جتنے بھی دوست ہیں، سب کی دوستی برقرار رہے گی۔ کوئی ایسی بات ہونے نہیں دوں گا کہ تکرار پیدا ہو۔ میں دوستوں پر کبھی نکتہ چینی نہیں کروں گا۔ ظاہر ہے وہ بھی اسی قاعدے پر عمل کریں گے۔ یہ بالکل صاف اور یقینی بات ہے۔“
ممنون نے کمرے کا دروازہ اندر سے بند کرلیا اور کھڑکی پر آکے باہر کی طرف دیکھنے لگا۔ نیچے سڑک پر دو عورتیں چلی جارہی تھیں۔ ایک بڑھیا تھی اور بہت مطمئن نظر آتی تھی۔ دوسری نہایت ہی خوبصورت دوشیزہ تھی اور زاروقطار رو رہی تھی۔ اس کے گالوں پر آنسوؤں کی لڑیاں حسن میں ایک عجیب دلکشی پیدا کررہی تھیں۔ ہمارے فلسفی کا دل، نظر پڑتے ہی بے چین ہوگیا، مگر معاً طے کرلیا کہ لڑکی کے حُسن و جمال نے نہیں بلکہ اس کی غمزدہ صورت نے جذبات بیدار کردیئے ہیں۔ فوراً تیزی سے نیچے اترا اور سڑک پر لڑکی کو روک کر اپنی فلسفیانہ نصیحتوں سے تسکین دینے لگا۔ لڑکی نے رو رو کر اپنی درد بھری کہانی سنانا شروع کی۔ ”میرا چچا بڑا ہی بے رحم ہے“ اس نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا ”مجھے بُری طرح مارتا ہے۔ میری تمام دولت ہتھیا لی ہے۔ اب میری جان کے پیچھے پڑا ہے۔ آپ خدا ترس، نیک دل اور عقلمند آدمی معلوم ہوتے ہیں۔ آپ چاہیں گے تو میری جان بچ جائے گی۔ مجھے یقین ہے، میرا دل کہتا ہے کہ آپ ہی میری مدد کرسکتے ہیں۔ مجھے اس عذاب سے نکال سکتے ہیں۔ خدارا ساتھ چلئے اور میرے گھر میں اطمینان سے بیٹھ کر سارا ماجرا سن لیجئے۔ ایک یتیم لڑکی کی درخواست نہ ٹھکرایئے!“۔ ممنون دوشیزہ کے ساتھ ہو لیا۔ ایک نہایت آراستہ کمرے میں داخل کیا گیا۔ بیش قیمت قالین پر عزت سے بٹھایا گیا۔ لڑکی سامنے بیٹھی اور بڑی لسانی سے اپنی بپتا سنانے لگی۔ اس کی نگاہیں نیچی تھیں، کبھی کبھی نظر اٹھاتی تھی کہ گرم آنسو بہائے اور فلسفی کو مسحور کر ڈالے۔ یہ حضرت ہمہ تن گوش بنے ہوئے تھے۔ بے اختیار آگے سرکتے جاتے تھے جب دونوں کے گھٹنے باہم مل گئے تو دفعتاً ایک ہتھیار بند آدمی کمرے میں نمودار ہوا، سخت غضبناک تھا۔ لال آنکھوں سے شعلے نکل رہے تھے۔ آتے ہی تلوار کھینچ لی اور دونوں کو قتل کر ڈالنے کی دھمکی دینے لگا! لڑکی، خوفزدہ نہیں تھی۔ معلوم ہوتا تھا پہلے سے سکھائی پڑھائی ہے تاہم اٹھ کر بھاگی اور کمرے سے غائب ہوگئی۔ اب صرف بیچارا ممنون فلسفی، خونخوار آدمی کے سامنے تھا۔ بڑی قیل و قال کے بعد وہ خونخوار آدمی اس بات پر راضی ہوا کہ فلسفی اپنی جیبیں خالی کرکے بیک بینی و دوگوش چلا جائے۔ ممنون بہت اداس اور شرمندہ گھر واپس آیا۔ یہاں دوستوں کی طرف سے دعوت میں بلاوا آیا ہوا تھا۔ ”گھر میں رہنے سے اس شرمناک واقعہ کی یاد تازہ ہوتی رہے گی۔“ فلسفی نے خیال کیا۔ ”بہتر ہے کہ دوستوں کی دعوت قبول کرلوں، ظاہر ہے بے اعتدالی نہ کرنے کا پکا ارادہ تو کر ہی چکا ہوں، لہٰذا جانے میں کیا حرج ہے؟ دوستوں کی پُرلطف صحبت میں اس وقت کی حماقت ضرور بھول جاؤں گا“!۔ دوستوں نے ممنون کو پریشان دیکھ کر شراب پیش کی۔ ”تھوڑی سی شراب، حداعتدال کے اندر شراب، دل و دماغ کے لئے بے حد مفرح ہوتی ہے۔“ یہ کہہ کر ممنون نے جام منہ سے لگا لیا، مگر تھوڑی تھوڑی کرکے بہت پی گیا۔ اب جوئے کی باری آئی۔ دوستوں کے اصرار پر اس نے یہ کہتے ہوئے پانسہ اٹھا لیا ”دوستوں کے ساتھ حداعتدال کے اندر کھیل، دُنیا کی بہترین نعمت ہے“۔ ممنون ہارتا گیا، یہاں تک کہ پاس جتنی نقدی تھی اس سے چار گنا زیادہ ہار گیا۔ پھر قماربازوں میں تکرار شروع ہوئی۔ ایک شخص نے ممنون کے منہ پر ایسا گھونسا مارا کہ آنکھ نکل پڑی۔ غریب کانا ہوگیا!۔ دوسرے دن صبح ممنون نے نوکر کو روپیہ لانے کے لئے بینک بھیجا تاکہ دوستوں کا قرض اتار دے۔ لیکن نوکر نے لوٹ کر یہ جانگسل خبر سنائی کہ بینک کا دیوالہ نکل گیا ہے۔ تمام روپیہ ضائع ہوچکا ہے۔ ممنون پر گویا بجلی گری، مرے پر سو درے ہوگئے۔ فوراً اٹھا۔ آنکھ پر پٹی باندھی اور بادشاہ سے فریاد کرنے کو شاہی محل کی طرف چل پڑا۔ راستے میں بہت سی عورتیں ملیں۔ سب اس پر اشارے مارتیں اور پھبتیاں کستی تھیں۔ ”کیسا بدصورت ہے…! بالکل بھوت معلوم ہوتا ہے“! ایک عورت نے کہا: ”میاں! سلام!“ ایک جان پہچان کی عورت پکاری، خیریت سے تو ہو؟ یہ پٹی کیسی بندھی ہے؟ کیا خیر سے کانے ہوگئے“؟ ممنون ٹھہر گیا کہ جواب دے، مگر عورت جواب کا انتظار کئے بغیر آگے بڑھ گئی۔
خوش قسمتی سے بادشاہ تک رسائی ہوگئی۔ ممنون نے سجدہ کیا۔ تین مرتبہ زمین چومی اور اپنی فریاد پیش کردی۔ بادشاہ نے بہت مہربانی سے درخواست ملاحظہ کی۔ پھر ضروری کارروائی کرنے کیلئے اپنے وزیر کے حوالے کردی۔ وزیر نے ممنون کو دفتر میں بلا کر سخت ڈانٹ بتائی، ”بدمعاش کانے“! وہ چلایا ”تو مجھے بڑا ہی بیوقوف معلوم ہوتا ہے۔ میری اجازت بغیر بادشاہ کے سامنے کیوں دوڑا چلا گیا؟ مردود! تو ایک ایسے آدمی کی شکایات کر رہا جس سے زمانے نے بے وفائی کی ہے۔ بینک کا مالک میری مغلانی کا بھائی ہے۔ اس کے خلاف زبان کھولنے کی تجھے کیسے جرأت ہوئی؟ دیکھ، اگر دوسری آنکھ عزیز ہے تو دعوے سے فوراً دستبردار ہوجا، ورنہ جانتا ہے میں کون ہوں۔“ہمارے فلسفی نے اپنے لئے یہ فلسفیانہ پروگرام بنایا تھا کہ دام محبت سے بچے گا۔ اَکل شُرب میں افراط سے پرہیز کرے گا۔ لہو و لعب اور مخرب اخلاق باتوں سے دور رہے گا۔ لڑائی جھگڑے سے اجتناب کرے گا لیکن چوبیس گھنٹے کے اندر ہی اس کا سارا پروگرام ٹوٹ گیا۔ عورت کے فریب میں آکر مال کھویا۔ شراب سے بدمست ہوا۔ جوا کھیلا۔ لڑ کر کانا بنا۔ حکام کی چوکھٹ پر فریاد لے جانا پڑی، اور سخ ذلت اور رسوائی سے دوچار ہوا۔