Sunday, July 27, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

معتبر و محترم عہد آفرین شخصیت۔۔ ریاض شاہد

شیغ لیاقت علی
تمام شعبہ ہائے حیات میں بعض شخصیات اپنے نظریات و عقائد کے علاوہ اپنی فکری صلاحیتوں اور بے مثل کارناموں کے حوالے سے بے حد معتبر و محترم ہونے کے ساتھ ساتھ عہد ساز اور عہد آفرین ہوجاتی ہیں۔ ریاض شاہد کا شمار بھی ایسی ہی نابغہ روزگار شخصیات میں فخریہ طور پر کیا جاسکتا ہے۔ بطور ہدایت کار اگر وہ اور کوئی فلم نہ بھی بناتے تو صرف ’’زرقا‘‘ ہی اُن کی تخلیقی عظمتوں کے اعتراف کے لئے بہترین حوالہ ہے۔ انہوں نے فلموں میں مکالمہ نویسی کو ایک نیا رنگ، نیا انداز اور منفرد اسلوب عطا کیا۔ بطور مکالمہ نویس فلم ’’بھروسہ‘‘ (1958) سے لے کر فلم ’’بہشت‘‘ (1974) تک اس اہم شعبے میں نئی اور اچھوتی تاریخ رقم کی اور پاکستانی فلم میں زبان و ادب کو ایک نئی جہت، نیا مقام اور نیا مرتبہ دلوا کر اپنے لئے بھی عزت و تکریم کے ساتھ شہرت و مقبولیت حاصل کی۔ فلم ’’بھروسہ‘‘ ہو یا ’’نیند‘‘، ’’رواج‘‘ ہو یا ’’خاموش رہو‘‘، ’’زرقا‘‘ ہو یا ’’غرناطہ‘‘، ’’شہید‘‘ ہو یا ’’فرنگی‘‘، ’’شکوہ‘‘ ہو یا ’’بدنام‘‘، ان کے رقم کردہ مکالموں میں ادبی چاشنی ہوتی تھی۔ فلمی دُنیا میں ریاض شاہد کو متعارف کرانے کا سہرا عوامی اداکار علاؤ الدین کو جاتا ہے، انہوں نے ’’بھروسہ‘‘ کے مکالموں کے لئے ریاض شاہد کو ہدایت کار جعفر شاہ بخاری سے ملوایا اور کس قدر حسن اتفاق ہے کہ بھروسہ، شہید، فرنگی، نیند، بدنام اور زرقا میں ریاض شاہد کے جاندار پُراثر اور بے مثل مکالموں کو ادا کرنے کا حق علاؤ الدین نے خوب نبھایا۔ فلم ’’سسرال‘‘ (1963) کے ذریعے ریاض شاہد نے ہدایت کاری کا بھی اعتماد کے ساتھ آغاز کیا۔ اس فلم کے علاوہ انہوں نے زرقا، غرناطہ اور یہ امن کی بھی ہدایات دیں۔ فلم ’’بہشت‘‘ کی عکس بندی کے دوران انہیں کینسر کا مرض لاحق ہوا اور یکم اکتوبر 1972ء کو وہ اس موزی مرض کے ہاتھوں اس فانی دُنیا سے رخصت ہوئے۔ فلم بہشت کو بعدازاں حسن طارق نے مکمل کرایا تھا۔ گو کہ ان کے کریڈٹ پر بطور ہدایت کار کل پانچ فلمیں ہی ہیں لیکن یہ فلمیں اپنے موضوعات اور منفرد اسلوب کے باعث بڑی اہمیت اور افادیت کی حامل فلمیں ہیں۔ بالخصوص زرقا تو تجارتی نقطہ نگاہ سے بڑی کامیاب اور سپر ہٹ فلم رہی اور اسے پاکستان کی اولین ڈائمنڈ جوبلی فلم ہونے کا بھی منفرد اعزاز حاصل ہوا۔ زرقا (1969) کو مجموعی طور پر آٹھ نگار ایوارڈ ملے، ریاض شاہد کو بہترین فلمساز، بہترین ہدایت کار اور بہترین کہانی نویس، حبیب جالب کو بہترین نغمہ نگار، مہدی حسن کو بہترین گلوکار، نیلو کو بہترین اداکارہ، علی کو بہترین تدوین کار اور حبیب شاہ کو بہترین آرٹ ڈائریکٹر کے ایوارڈ عطا کئے گئے۔ ریاض شاہد کو شاہکار فلم زرقا سے قبل فلم نیند (بہترین مکالمہ نگار)، فلم شہید (بہترین کہانی نویس و مکالمہ نگار)، فلم شکوہ (بہترین مکالمہ نگار)، خاموش رہو (بہترین کہانی نویس)، فرنگی (بہترین مکالمہ نگار) اور فلم زرقا کے بعد فلم یہ امن (بہترین مکالمہ نگار)، فلم بہشت (1974ء بہترین کہانی نویس و مکالمہ نگار بعد از مرگ) اور سال 1978ء کی شاہکار فلم حیدر علی (بہترین کہانی نویس بعدازمرگ) نگار ایوارڈز حاصل کئے۔ اُن کے حاصل کردہ نگار ایوارڈ کی تعداد 13 ہے۔ اُن کی فلم ’’زرقا‘‘ میں ٹائٹل رول مہارت سے ادا کرنے والی اداکارہ نیلو اُن کی شریک حیات تھیں جن سے ریاض شاہد کے دو صاحبزادے شان جو سال 1990ء کی فلم بلندی سے بطور ہیرو متعارف ہوئے اور پاکستان کے معروف اداکاروں میں اُن کا شمار ہوتا ہے اور سروش کے علاوہ صاحبزادی زرقا شامل ہیں۔
ریاض شاہد اتنی بڑی شخصیت ہے کہ پوری کتاب اُن پر لکھی جاسکتی ہے لیکن زیرنظر مضمون اس کا متحمل نہیں ہوسکتا، متعدد فلموں کی کہانیاں اور مکالمے تحریر کرنے والے اس صاحب اسلوب ادیب نے ایک ناول بعنوان ’’ہزار داستان‘‘ بھی لکھا۔ رواں تحریر میں مذکور اب تک کی فلموں کے علاوہ انہوں نے گناہ گار، نظام لوہار، مجبور، ایک رات، جواب دو، باغی سردار، ماں باپ، ڈاکو تے انسان، مسٹر اللہ دستہ وغیرہ کے مکالمے تحریر کئے۔ ریاض شاہد فلموں میں آنے سے قبل باقاعدہ شعبہ صحافت سے بھی وابستہ رہے اور ’’چٹان‘‘، ’’لیل و نہار‘‘ اور روزنامہ ’’مغربی پاکستان‘‘ سے بطور صحافی و ادیب خدمات انجام دیں۔ یکم اکتوبر 2018ء کو انہیں ہم سے بچھڑے 46 برس ہوگئے ہیں۔ لاہور کے پیر مکی کے قبرستان میں آسودہ خاک ریاض شاہد کی اللہ کریم مغفرت فرمائے۔ اب تحریر کے اس آخری حصے میں اُن کی بعض فلموں کے نغمات کی جھلک
ایک بھول سمجھ کر ہم دل کی الفت کا زمانہ بھول گئے
(بھروسہ، منیر حسین، حبیب جالب، اے حمید)
تیرے در پر صنم چلے آئے تو نہ آیا تو ہم چلے آئے
(نیند، نورجہاں، تنویر نقوی، رشید عطرے)
جس نے میرے دل کو درد دیا اس شکل کو میں نے بھلایا نہیں
(سسرال، مہدی حسن، منیر نیازی، حسن لطیف)
اُس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوست دوست
(شہید، نسیم بیگم، منیر نیازی، رشید عطرے)
آج محفل سجانے کو آئی، آج محفل سجانے کو آئی
(شکوہ، نورجہاں، تنویر نقوی، حسن لطیف)
میں نے تو پریت نبھائی سانوریا رے نکلا تو ہرجائی
(خاموش رہو، مالا، حمایت علی شاعر، خلیل احمد)
گلوں میں رنگ بھرے باد نوبہار چلے
(فرنگی، مہدی حسن، فیض احمد فیِض، رشید عطرے)
دور دور رہ کر گزارا نہیں ہوگا، ہمارا نہیں ہوگا جی تمہارا نہیں ہوگا
(رواج، مالا، خواجہ پرویز، ماسٹر عنایت حسین)
آج خوشی سے جھوم رہا ہے اک پردیسی دیوانہ
(باغی سردار، احمد رشدی، پروفیسر نجمی، مصلح الدین)
بڑے بے مروت ہیں یہ حسن والے کہیں دل لگانے کی کوشش نہ کرنا
(بدنام، ثریا ملتانیکر، مسرور انور، دیبو)
آجا پیاری نندیا آجا چوری چوری سوئے میرا لاڈلا میں دیتا جاؤں لوری
(مجبور، مجیب عالم، قتیل شفائی، تصدق حسین)
ہم نے تو پیار کیا ہے کیا ہے اک دلربا سے اک بے وفا سے لوگو سن لو ہم نے تو پیار کیا ہے
(نوٹ: فلم گناہ گار 1967ء میں ریاض شاہد نے بطور نغمہ نگار بھی اپنا لوہا منوایا، اس گیت کو انہوں نے لکھا اور فلم کے لئے اسے علیحدہ علیحدہ سے رشید عطرے نے منیر حسین اور مالا سے گوایا)
دیکھا ہے تمہیں جب سے اے جانِ غزل
(ماں باپ، احمد رشدی، قتیل شفائی، تصدق حسین)
تو کہ ناواقف آداب غلامی ہے مگر رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے
(زرقا، مہدی حسن، حبیب جالب، وجاہت عطرے)
کس نام سے پکاروں کیا نام ہے تمہارا
(غرناطہ، نورجہاں، تنویر نقوی، اے حمید)
اے میرے کشمیر کھینچی ہوئی ہے دل پہ میرے یہ لکیر
(یہ امن، نورجہاں/مجیب عالم، شاعر ریاض شاہد، اے حمید)
کس نے بجائی ہے یہ بانسریا میرا دھڑکن لاگا جی
(اک رات، نورجہاں، تسلیم فاضلی، ناشاد)
میں جو شاعر کبھی ہوتا تیرا سہرا کہتا
(بہشت، مہدی حسن، شاعر ریاض شاہد، رشید عطرے)
بول ری سکھی ری اپنے پیا کو کیسے آج رجاؤں
(حیدر علی، مہناز، قتیل شفائی، خواجہ خورشید انور)

مطلقہ خبریں

غزل

غزل

غزل