حکومت اور اپوزیشن میں بڑھتی ہوئی سیاسی مخاصمت کا سب سے منفی اثر معیشت پر پڑ رہا ہے، معاشی ترقی کے لئے سیاسی استحکام لازمی ہے، جب لانگ مارچ میں اپوزیشن سڑکوں پر ہو تو اسٹاک ایکسچینج کا گِرنا حیرت انگیز نہیں ہوتا، سرمایہ کاری کا رُک جانا تعجب خیز نہیں ہوتا، معاشی استحکام کے لئے سیاسی درجہئ حرارت کو کم رکھنا پڑتا ہے، اس کی ایک مثال برطانیہ بھی ہے جہاں آئے دن وزیراعظم تبدیل ہورہے ہیں کیونکہ معیشت میں استحکام نہیں ہے، کساد بازاری کی وجہ سے تاجر و عوام بے چین ہیں، جس کا براہ راست اثر سیاست کو متاثر کررہا ہے، سیاسی بے یقینی کی دوسری مثال ایران ہے جہاں مہنگائی اور سخت معاشرتی قوانین کی وجہ سے عوام میں بے چینی ہے لیکن اس کے برعکس چین کو دیکھیں تو گزشتہ 10 سال میں اس کی معیشت میں تقریباً 30 سے 35 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ون روڈ ون بیلٹ منصوبے سے 149 ممالک جڑ چکے ہیں، جو دُنیا کی کُل معیشت کا تقریباً 35 سے 40 فیصد ہے، چین کا مستحکم سیاسی نظام پاکستان سمیت تیسری دُنیا کے دیگر ملکوں کے لئے ایک بہترین مثال ہے، اگرچہ اس کے سیاسی نظام سے اختلاف ہوسکتا ہے مگر اس کے نتیجے میں ہونے والی معاشی کامیابیاں جھٹلائی نہیں جاسکتیں، دُنیا کی پیداواری صنعت میں 30 فیصد حصہ چین کا ہے۔ گزشتہ 10 سالوں میں 82 نئے ہوائی اڈے تعمیر کئے گئے ہیں، اوسط آمدنی میں 66 سے 82 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس کے مقابلے میں پاکستان کی معیشت پر نظر ڈالیں تو بقول سابق وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل معاشی نظام انصاف و مساوات سے عاری ہے۔ کرایہ داری معیشت کے ذریعے لوٹ مار اور ٹیکس چوری کی جارہی ہے، تقریباً 80 لاکھ پاکستانی ملک سے باہر رہتے ہیں جو سالانہ 30 سے 34 ارب ڈالر بھیج رہے ہیں، اگر ہمارے پاس 35 سے 40 ارب ڈالر سالانہ ہوں اور ہم 70 سے 80 ارب ڈالر کی درآمدات کریں تو تباہی کی بنیاد اپنے ہاتھوں سے رکھ رہے ہیں، ملکی پیداوار کو بڑھائے بغیر ترقی ناممکن ہے، بازار کی کسی دُکان یا ٹھیلے پر چلے جائیں چینی مصنوعات کی بھرمار ہے، چین نے اپنے ملک میں غربت کی کمی کے لئے 230 ارب ڈالر خرچ کئے ہیں، سی پیک پاکستان اور چین کے درمیان ایسا منصوبہ ہے جس سے پاکستانی معیشت کا استحکام جڑا ہوا ہے، وزیراعظم کا حالیہ دورہ اسی تناظر میں ہے، سی پیک کے سُست رفتار منصوبوں میں تیزی لانا ہے۔ چینی کمپنیوں نے کراچی میں بجلی، پانی اور دیگر منصوبوں میں سرمایہ کاری کی دعوت قبول کرنے کے ساتھ جامشورو سمیت مختلف سائیٹس پر 10 ہزار میگاواٹ شمسی توانائی کے منصوبے کی پیشکش کی ہے، پاکستان کا چین سے ہائی اسپیڈ ٹرین درآمد کرنے کا معاہدہ بھی ہوا ہے۔ چین ہائی اسپیڈ ٹرین ٹیکنالوجی دے گا، اس وقت چین میں 430 کلومیٹر فی گھنٹہ سے اسپیڈ ٹرین چل رہی ہیں اور 600 کلومیٹر فی گھنٹہ پر کام ہورہا ہے، چین سے لین دین کے معاملات گزشتہ دور میں خراب ہوئے تھے، 160 ارب روپے کی چینی کمپنیوں کو ادائیگی شہباز حکومت نے اس ادائیگی کے بعد چین جانے سے ایک روز قبل 150 ارب روپے کی ادائیگی کوئلے کی درآمد کی مد میں کی گئی تھی۔ اس سے قبل سعودی عرب کے دورے کا محور بھی پاکستان کے معاشی مسائل ہی تھے جن میں 12 ارب ڈالر کے مختلف منصوبوں پر سرمایہ کاری کرنے پر اتفاق کیا گیا، مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط ہوئے، وزیراعظم شہباز شریف نے سیلاب زدگان کی مشکلات کا تذکرہ بھی کیا، سعودی قیادت کی جانب سے اس معاملے پر بھی مزید امداد دینے کی یقین دہائی کروائی گئی، چین اور سعودی عرب کے دوروں کے نتیجے میں غیرملکی سرمایہ کاری بڑھے گی مگر اس کے لئے سیاسی استحکام کی مرکزی حیثیت ہے، اگر لانگ مارچ ہوتا رہا اور کہیں ٹکراؤ کی کیفیت پیدا ہوگئی تو امن وامان متاثر ہوگا، جس کا براہ راست منفی اثر معیشت پر پڑے گا کیونکہ ملکی و غیرملکی سرمایہ کاری رُک جاتی ہے، مقامی سرمایہ کار بھی محتاط ہوجاتا ہے یا اپنا سرمایہ دبئی یا دیگر ایسے ملکوں میں لگا دیتا ہے جہاں اُسے سرمایہ دوست ماحول اور نظام نظر آتا ہے، پاکستانی معیشت کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے، ایک تو ادائیگی میں توازن کے لئے ڈالر کی فراہمی یقینی بنانا ساتھ ہی سرمایہ کاروں کا اعتماد حاصل کرنا اور اس کے علاوہ سیلاب زدگان کی بحالی کے لئے وسائل کا بندوبست کرنا، بحالی کے لئے 35 سے 40 ارب ڈالر کی ضرورت ہے جو عالمی اداروں اور دوست ملکوں کی جانب سے حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن اس کا انحصار بھی سیاسی استحکام ہی پر ہے، جب دُنیا دیکھتی ہے کہ ملک کا سیاسی نظام اپنے ٹریک پر رواں دواں ہے، غیریقینی نہیں ہے تو سرمایہ لگانے یا امداد دینے والے کا اعتماد بڑھتا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ اس وقت پاکستانی سیاست غیریقینی کا شکار ہے اور ٹکراؤ کی طرف گامزن ہے۔ اگر عمران خان اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور قبل از وقت انتخابات کا اعلان ہوجاتا ہے تو سیاسی مہم کے دوران لڑائی، مار کٹائی کے امکانات ہیں، اس کے بعد جو نتائج آئیں گے، اس پر کوئی یہ یقین دہائی نہیں کروا سکتا کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں کے لئے قابل قبول ہوں گے، اگر تحریک انصاف کامیاب ہوجاتی ہے تو حکومت میں شامل جماعتیں ان نتائج کو تسلیم نہیں کریں گی، اگر حکومتی اتحاد کامیاب ہوجائے تو تحریک انصاف ان نتائج کو کبھی تسلیم نہیں کرے گی، ویسے لانگ مارچ سے ایک دن قبل ڈی جی آئی ایس آئی کا پریس کانفرنس کرنا مستقبل کے سیاسی منظرنامے پر موجود دُھند کو صاف کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے، انہوں نے اداروں پر لگائے گئے بے بنیاد الزامات کی جس کھلے الفاظوں سے تردید کی ہے وہ عمران خان کے لئے سوچ بچار کے در وا کرتی ہے۔ لیکن عمران خان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ خود کو عقلِ کُل سمجھتے ہیں، قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات میں 8 میں سے 7 سیٹوں پر کامیاب ہوجانے سے ان کے اعتماد میں بہت اضافہ ہوا ہے، وہ خود کو پاکستان کا خمینی سمجھ رہے ہیں اور انقلاب کو سامنے دیکھ رہے ہیں لیکن پاکستان کی سیاسی تاریخ ہے کہ جو دکھائی دے رہا ہوتا ہے اس کے برعکس ہوتا ہے، اس وقت تمام سیاسی قیادت کو سب سے پہلے تناؤ کم کرنے کے لئے اور عدم برداشت کے ماحول کو ختم کرنے کے لئے ایک ساتھ مل کر بیٹھنا ہوگا پھر سیاسی، معاشرتی اور معاشی استحکام کے لئے ایک روڈمیپ تشکیل دینا ہوگا، یہ سب کچھ اسی وقت ہوسکتا ہے جب مذاکرات کی راہ ہموار ہو، ابھی تو حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کو دیکھنے کی روادار نہیں ہے، حکومت کچھ لچک دکھائے بھی تو خان صاحب خود کو انقلابی سمجھ بیٹھتے ہیں، وہ اپوزیشن قیادت کے سامنے خود بیٹھنے کے لئے تیار نہیں ہیں، تمام تر تحفظات اور اختلافات کے باوجود انہیں یہ کڑوا گھونٹ پینا ہوگا، اپنے مخالفین کے ساتھ بیٹھ کر معاملات طے کرنا ہوں گے کیونکہ معاشی استحکام سیاسی استحکام سے مشروط ہے۔پاکستان کو چین سے غربت کے خاتمے کے طریقہ کار اور فارمولے کو لینا چاہئے۔ چین نے معجزانہ انداز میں اپنے ملک کی غربت کو ختم کیا ہے۔ وزیراعظم کے سعودی عرب اور چین کے دورے کے ثمرات سیاسی ہم آہنگی کے بغیر حاصل نہیں ہوسکیں گے۔