Sunday, July 27, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

معاشرے میں تشدد کا بڑھتا ہوا خوفناک رجحان

اس کی وجہ مذہبی انتہاپسندی نہیں بلکہ بڑھتا ہوا ہیجان، ذہنی دباؤ اور اضطراب ہے
ظفر سجاد
سیالکوٹ میں سری لنکن منیجر کا قتل پہلا واقعہ نہیں تھا اس سے پہلے بھی توہین رسالتؐ کے الزام میں کئی افراد کو مختلف واقعات میں موت کرکے گھاٹ اُتارا گیا ہے۔ سری لنکن منیجر کے قتل کی دھول ابھی بیٹھی بھی نہیں تھی کہ میاں چنوں میں ایک فاتر العقل فرد کو لوگوں کے ایک ہجوم نے اسی الزام میں قتل کردیا۔ 33 افراد کو نامزد اور 300 نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کردیا گیا۔ اگر ان واقعات کی ویڈیو دیکھی جائے تو ایک بات بالکل واضح نظر آتی ہے کہ پورے ہجوم پر ایک ہیجانی کیفیت طاری ہے، ان کا ہیجان اور اضطراب ان کے چہروں سے صاف نظر آتا ہے۔ سری لنکن منیجر کے قتل کے بعد پوری حکومت اور ریاست کو سری لنکا کے ساتھ پوری دُنیا سے اس واقعہ کے معافی مانگنی پڑی، معذرت اور معافی کا یہ سلسلہ خاصا عرصہ جاری رہا مگر ظاہر ہے کہ اس واقعہ کی تلافی نہیں ہوسکتی۔ اس قسم کے واقعات کے تسلسل سے پوری دُنیا میں یہ تاثر اُبھرا ہے کہ پا کستانی عوام مذہبی جنونی ہے، جب توہین مذہب کے الزام میں سینکڑوں افراد مِل کر ایک فرد کو قتل کررہے ہوتے ہیں تو بیرونی میڈیا میں ان افراد کے جنونی چہروں کو خاص طور پر دکھایا جاتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل جب سوات میں اسلامی نظام کی آڑ میں خواتین کو کوڑے مارے گئے تو اس وقت بھی عالمی میڈیا میں ان واقعات کو خاصی ترویج دی گئی۔
مذہب اسلام کے بارے میں ایک عجیب سا تاثر اُبھر رہا ہے، مگر حیرت کی بات ہے کہ پاکستانی حکومتوں اور مذہبی اجارہ داروں نے اقوام عالم کو کبھی بھی بھرپور طریقے سے باور کرانے کی کوشش نہیں کی، کہ یہ رویّے اسلام کی تصویر نہیں ہیں بلکہ یہ پُرتشدد رویّے اسلامی تعلیمات کے بالکل برعکس ہیں اور عوام کے اس قسم کے ہیجانی اور اضطرابی رویّوں کا تعلق مذہبی جنونیت سے نہیں بلکہ مخدوش مستقبل اور غیریقینی صورتِ حال سے دوچار ہونے کی وجہ سے ہے، تاہم وزیراعظم عمران خان نے بیرون ممالک میں اسلاموفوبیا کے حوالے سے ہر فورم پر بات کی اور اسلام کے بارے میں پائی جانے والی غلط فہمیاں دور کرنے کی کوشش کی۔
ظاہر ہے کوئی بھی حکومت اس بات کی ذمہ داری قبول نہیں کرے گی کہ وہ اپنی عوام کو ایک بہتر زندگی نہیں دے سکے۔ لوگوں کے ہیجان اور جنون کی اصل وجہ سا منے لانے سے حکومتوں کی اپنی ساکھ پر ضرب پڑتی ہے جبکہ حقیقت یہی ہے کہ غیریقینی صورتِ حال معاشی مسائل اور ہر معاملے میں عدم تحفظ کے احساس نے تقریباً 85 فیصد بالغ عوام کے روّیے غیرمتوازن ہیں، لوگوں میں برداشت کا مادہ ختم ہوچکا ہے، عام افراد بے بسی اور بے کسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ پورا معاشرہ ایک گھٹن کا شکار ہے مگر یہ گھٹن پریشر ککر کی مانند ہے اور کسی نہ کسی وقت یہ پریشر ککر پھٹ بھی جاتا ہے۔ موجودہ حکومت کے دور میں مہنگائی تین گنا زیادہ ہوچکی ہے، یوٹیلیٹی بِلوں میں بھی بے پناہ اضافہ ہوچکا ہے مگر ملازمت پیشہ افراد کی آمدنی میں خاظرخواہ اضافہ نہیں ہوسکا۔ کاروباری حضرات اور ہْنرمند افراد کو تو اِتنا اثر نہیں پڑا کیونکہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے ساتھ وہ بھی اپنے ذرائع آمدنی میں اضافہ کرلیتے ہیں مگر ملازمت پیشہ افراد پِس کر رہ گئے ہیں۔ مہنگائی میں جس قدر اضافہ ہورہا ہے اس نے اِن افراد کو نفسیاتی مریض بنا دیا ہے، وہ لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ مہنگائی کی وجہ سے پہلے ہی ان کا گزارہ نہیں ہورہا، اگلے ماہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے ساتھ مزید مسائل بڑھیں گے۔ اس سے اگلے ماہ ان مسائل میں اور بھی اضافہ ہوجائے گا، اس پر مستزاد یہ کہ ملازمتوں کا تحفظ بھی اب حاصل نہیں۔ فیکٹریوں اور کارخانے والے بھی ملازمین کو مستقل بنیادوں پر رکھنے کی بجائے کنٹریکٹ پر رکھ رہے ہیں کیونکہ مستقل ملازمین کو رِیٹائرڈ یا فارغ کرتے ہوئے رقم دینی پڑتی تھی۔ حکومت نے اس مسئلے پر توجہ ہی نہیں دی بلکہ ایکسپورٹ میں اضافہ کرنے کیلئے فیکٹری مالکان اور کارخانہ داروں کو خاص مراعات دی گئی ہیں مگر انہیں اس بات کا پابند نہیں بنایا گیا کہ وہ اپنے منافع کا کچھ حصہ اپنے ورکروں پر بھی خرچ کریں۔
عجیب سی غیریقینی صورتِ حال ہے، زیادہ تر مزدور پیشہ طبقہ کرائے کے گھروں میں رہتا ہے۔ مالکان نے کرایوں میں بھی ہوش رْبّا اضافہ کر رکھا ہے، اگر کوئی مجبوری کا اظہار کرے تو بذریعہ طاقت مکان خالی کرا لیا جاتا ہے، کرائے کا مکان ڈھونڈنا اور بدلنا ایک ایسا عذاب ہے کہ جِسے صرف کرائے دار ہی سمجھ سکتے ہیں۔ مزید بّراں یہ کہ پاکستانی عوام کا ”لائف اسٹائل“ آمدنی سے مطابقت نہیں رکھتا۔ عام لوگ بھی موٹرسائیکلوں اور کاروں کے مالک بن چکے ہیں۔ ظاہر ہے کہ انہیں چلانے کیلئے پیٹرول بھی ڈلوانا پڑتا ہے۔ سادہ ناشتے اور خوراک کا تصور بھی ناپید ہوچکا ہے، ہر فرد کے ہاتھ میں مہنگے سے مہنگا موبائل فون نظر آتا ہے، جب کوئی فرد ایک دفعہ تعیشات کی زندگی کا عادی ہوجاتا ہے تو پھر اس کا واپس پلٹنا ناممکن ہوتا ہے یعنی پہلی والی زندگی کی جانب جانا ممکن نہیں ہوتا۔ عدم برداشت کے لاتعداد واقعات کے بعد بھی اہل اقتدار و اختیار نے یہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کی کہ عوام کے اس روّیے کی وجہ کیا ہے اور اس کا حل کیا ہے؟ ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے کیا کرنا چاہئے؟ موجودہ حکومت بھی یہ جاننے کی کوشش نہیں کررہی کہ آخر عوام میں ہیجانی کیفیت کیوں طاری ہورہی ہے۔ حکومتی اور اپوزیشن پارٹیوں کے ترجمان عوام کے مسائل پر بات کرنے کی بجائے ایک دوسرے پر الزامات لگا کر ہر مسئلے سے بّری الذمہ ہوجاتے ہیں۔ عوام کے مسائل میں اس قدر اضافہ ہوچکا ہے کہ ہر فرد اپنے اور اپنے خاندان کے مستقبل سے ہی پریشان ہوچکا ہے، تفکرات اور خوف کے سائے گہرے ہورہے ہیں، ہر حکومت الیکشن سے پہلے عوام کو سنہرے خواب دکھاتی ہے پھر اپنے وعدے پورے نہ کرنے کی ذمہ داری سابقہ حکومتوں پر ڈال دیتی ہے۔ اس وقت عوام کو روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ اخراجات پورے کرنا ممکن نہیں رہا۔ پیٹرول کی قیمت میں آ ئے دن اضافہ ہوتا جارہا ہے، پیٹرول کے ساتھ ہر چیز کی قیمت بڑھ جاتی ہے، ہمارے ملک کی 75 فیصد آبادی اپنی بقا کی جنگ لڑتے لڑتے تھک چکی ہے۔ عوام کے اعصاب شل ہوچکے ہیں۔ مایوسی کی دُھند اس قدر گہری ہوچکی ہے کہ کوئی بھی معمولی واقعہ پیٹرول کو تیلی لگانے کا سبب بن سکتا ہے۔ اہل اقتدار و اختیار کو شاید اس بات کا ادراک نہیں ہے کہ ہم اس وقت آ تشِ فشاں کے دہانے پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ فوری طور پر ایسے اقدامات کرنا ہوں گے کہ غیریقینی صورتِ حال کا خاتمہ ہوسکے۔ اس وقت پاکستان کے جو بڑے مسائل ہیں ان کے متعلق عوام کو اعتماد میں لینا پڑے گا۔ حکومتوں کو یہ وطیرہ ترک کرنا پڑے گا کہ ہر صبح عوام کو ایک اچھے مستقبل کی خوشخبری سنا کر شام کو مایوسی کے اندھیروں میں دھکیل دیا جاتا ہے اور اسی طریقے سے اپنے اقتدار کا وقت پورا کیا جاتا ہے۔
ورلڈ لیبر آرگنائزیشن نے رپورٹ جاری کی ہے کہ ”پا کستان میں 5 سال سے لے کر 15 سال تک کے ایک کروڑ بچے چائلڈ لیبر کا شکار ہیں اور اسی عمر کے دو کروڑ بچے اسکولوں سے باہر ہیں، یعنی وہ تعلیم حاصل نہیں کررہے۔“ اس تعداد میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے۔ اگر چائلڈ لیبر کرنے والے بچوں کے گھر کے حالات دیکھے جائیں تو واضح ہوگا کہ گھر کا خرچ چلانے کے لئے ان گھرانوں کے پاس اس کے علاوہ کچھ چارہ ہی نہیں ہے۔ بچپن انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے، کیونکہ اسی عمر میں دماغ کے کمپیوٹر میں پہلی دفعہ جو ”فیڈ“ ہوجاتا ہے پھر اُسے بعد میں ”ڈیلیٹ“ کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے، بچوں کے احساسات اور جذبات کو انتہائی اہمیت دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کی صلاحیتوں میں نکھار پیدا کرنے کے لئے پوری حکومت اور معاشرے کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ اپنا کردار ادا کرے، مگر وطن عزیز میں بہت ہی کم افراد اس حقیقت سے واقف ہیں کہ بچوں کی ذہنی نشوونما اور مثبت شخصیت بنانے کیلئے کون سا ماحول درکار ہے اور اس معاملے میں معاشرے کی ذمہ داریاں کیا ہیں۔ جن بچوں کو چائلڈ لیبر کا شکار بنایا جاتا ہے، ان کے ذہن کی نشوونما محدود ہوجاتی ہے، یہ بچے بڑے ہوتے ہیں تو یہ اپنی اولاد کی بھی تربیت کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ اسی طرح جو بچے تعلیم حاصل کرنے سے قاصر ہیں ان کا ”آئی کیو لیول“ بھی محدود ہوجاتا ہے۔ دو کروڑ بچے اسکولوں سے باہر ہیں، اس بات سے مستقبل کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، مستزاد یہ کہ جو بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں ان کا ”آئی کیو لیول“ بڑھانے اور ان کی صلاحیتوں میں نکھار پیدا کرنے کیلئے وہ طریقے اختیار نہیں کئے گئے کہ جو اس وقت بیرونی ممالک میں اپنائے گئے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اہل فکر نے بھی اس بات کی اہمیت کو محسوس نہیں کیا۔ بڑھتی ہوئی جہالت اور چائلڈ لیبر کی وجہ سے معاشرے میں ہٹ دھرمی، ضد، عدم برداشت، عدم رواداری اور دوسرے منفی رحجانات میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے، پوری قوم کو جہالت اور چائلڈ لیبر کے خلاف جہاد کرنا پڑے گا، اس وقت ملک کی ایک بڑی آبادی کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بہت محدود ہوچکی ہے۔ موجودہ حکومت اگر پاکستان کا مستقبل روشن دیکھنا چاہتی ہے تو اُسے فی الوقت پاکستان میں تعلیمی ایمرجنسی لگانی پڑے گی، سڑکیں پل بنانا ابھی اتنا اہم نہیں جتنا قوم کو تعلیم یافتہ بنانا ہے، سارا زور اور سرمایہ تعلیم پر لگانا پڑے گا۔ نصاب ایسا ہونا چاہئے کہ بچوں کے ذہن پر بوجھ نہ پڑے ان کا ذہن آہستہ آہستہ کھلتا جائے۔ جن ممالک کی زبان انگریزی ہے وہاں بچوں پر دوہرا ذہنی بوجھ نہیں ہوتا، پاکستان جیسے ممالک میں جب انگریزی میں کچھ سکھانے اور سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے تو بچوں کو اصل بات کی سمجھ آتی ہے نہ اُن کا ذہن کھلتا ہے، اس کے ساتھ ملک کے تمام اساتذہ کو ازسرنو اس بات کی تربیت دینے کی ضرورت ہے کہ وہ بچوں کے رجحانات اور ذہنی صلاحیتوں کو خود جانچ سکیں اور اس کے مطابق ہر بچے پر انفرادی توجہ دے سکیں۔ بچوں کی شخصیت میں نکھار لا سکیں اور ان کے اندر موجود منفی رجحانات ختم کرسکیں۔ اساتذہ کو اس بات کی بھی تربیت دی جائے کہ اگر کسی گھر کا ماحول ناخواندہ ہو تو اس گھر کے بچوں کی تعلیم و تربیت کس انداز میں ہوگی، یہ ایک ایسا نازک موضوع ہے کہ جس پر تفصیل سے بات کرنے کی ضرورت ہے، اس وقت موثر تعلیم و تربیت ہی عدم برداشت جیسے منفی روّیوں کو ختم کرسکتی ہے۔
موجودہ حکومت تواتر سے ایسے اعدادوشمار پیش کررہی ہے کہ گاڑیوں کی فروخت میں اضافہ ہورہا ہے، تعمیراتی شعبہ بہت ترقی کررہا ہے، لوگوں کا معیارِ زندگی بہت بلند ہوچکا ہے، پاکستان کی امپورٹ میں بہت اضافہ ہوچکا ہے مگر حکومت یہ اعدادوشمار پیش کرنے سے قاصر ہے کہ دودھ اور شہد کی بہنے والی ان نہروں سے کتنے فیصد لوگ فائدہ اٹھا رہے ہیں جبکہ مسائل کا شکار یہ طبقہ ملکی اور معاشی ترقی کے یہ اعدادوشمار سنتا ہے تو انہیں اپنی محرومیوں کا احساس مزید بڑھ جاتا ہے۔ لوگ سوچتے ہیں کہ ملک میں اس قدر خوشحالی آچکی ہے کہ لوگ نئی گاڑیاں بھی خرید رہے ہیں دوسری مصنوعات بھی خرید رہے ہیں مگر ان کے پاس کھانے کے پیسے بھی نہیں ہیں، وہ اپنے بچوں کو تعلیم نہیں دلوا سکتے، گھر والوں کیلئے دوائی نہیں خرید سکتے بلکہ وہ یہ مشکل زندگی گزارنے کیلئے مجبور ہیں اور یہ سمجھ کر زندگی گزار رہے ہیں کہ اس دردناک زندگی کا ایک پل اور ختم ہوا، ان کے دِلوں میں نفرت کا ایک جوار بھاٹا پیدا ہوجاتا ہے۔ ان کی مایوسی میں اور بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔

مطلقہ خبریں

غزل

غزل

غزل