Sunday, December 22, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

”محبت کی پکار“

حیات اللہ انصاری
منڈی میں کام کرتے ہوئے فرخ کو دو مہینے گزر گئے، اس دوران میں صرف تین چار موقع اس کو کاروبار کرنے کے ملے اور ان موقعوں سے اس کی تھوڑی بہت آمدنی ہوگئی۔ اسٹیشن کی زندگی آسان نہ تھی، دو تین روز میں ریل والوں نے اور پہرہ دینے والے کانسٹیبل نے پہچان لیا کہ یہ شخص تھرڈ کلاس ویٹنگ ہال کا مستقل باشندہ بننا چاہتا ہے اور ان سب نے فرخ کو سختی سے منع کیا۔ فرخ نے ہمت نہیں ہاری اس نے ان کی چائے سے روزانہ آؤبھگت کرنا شروع کردی اور قیام کا بہانہ بنانے کیلئے وہ یہ کرنے لگا کہ رات کو ساڑھے بارہ بجے ایسی گاڑی کا ٹکٹ خرید لیتا جو صبح پانچ بجے چھوٹتی تھی اور پھر پانچ بجے اس ٹکٹ کو واپس کردیتا۔ اس میں تھوڑے سے پیسے کٹ جاتے تھے مگر کوئی اس کو ٹوک نہیں سکتا تھا۔ فرخ کو صبح اٹھتے ہی بستر تہہ کرکے باندھ کر کلرک روم میں رکھنا پڑتا تھا، پھر ٹکٹ واپس کرکے ضروریات سے فراغت کیلئے لائن لگانا پڑتی تھی، وہاں سے نکل کر سبزی منڈی جو تقریباً تین میل تھی پیدل بھاگ جانا پڑتا تھا۔ یہ کام زیادہ مشکل نہ ہوتا اگر اس زندگی میں حادثات نہ ہوتے۔ پہلا حادثہ تو یہ ہوا کہ پہلی رات اس کی کلائی پر بندھی ہوئی گھڑی کسی نے اتار لی۔ دوسرا حادثہ یہ ہوا کہ دو دن کے بعد کسی نے تکیہ اور اس کے بستر پر بچھی ہوئی کھدر کی پھٹی چادر اڑا دی۔ یہ باتیں بھی فرخ کیلئے کچھ زیادہ ناقابل قبول نہ تھیں لیکن جو بات بہت سخت تھی وہ یہ کہ اسٹیشن کے گرد رہنے والے غنڈوں کو فرخ کا قیام ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا۔ ان میں سے ایک تو تقریباً روزانہ اس کو کسی نہ کسی بہانے سے گالیاں دیتا رہتا تھا اور ہر وقت لڑنے پر آمادہ رہتا تھا اور غسل خانے کی لائن میں جہاں وہ فرخ کو اپنے سے آگے دیکھتا تو اس کو ڈرادھمکا کر اور دھکے دے کر پیچھے لانے کی کوشش کرتا۔ ایک اور گنڈا تھا جو فرخ کو چھپ کر تنگ کرتا تھا مثلاً رات کو فرخ کے بستر پر گندی گندی چیزیں ڈال دیتا تھا۔ ایک دن اس نے مرا ہوا چوہا ڈال دیا جس سے فرخ کو قے ہوگئی اور پھر دن بھر اس کا جی اتنا متلاتا رہا کہ وہ ایک نوالہ بھی نہ کھا سکا۔ مہرجان کیلئے دہلی میں فرخ نے چوبے اور چھور کی زندگی بتائی تھی اس میں اس طرح کے گنڈوں سے بھی سابقہ پڑا تھا۔ اس زمانے میں تو وہ ان پر فتح نہیں پا سکا تھا، لیکن وہاں سے آنے کے بعد سوچا کرتا تھا کہ اگر میں ایسا ایسا کرتا توشاید فتح پا جاتا۔ اسٹیشن کے گنڈوں سے جب مقابلہ ہوا تو اس نے سوچا کہ یہاں اپنی سوچی ہوئی تدبیروں کو آزمانا چاہئے۔ چنانچہ اس نے چھانٹ کر سب سے سیدھے اور کمزور گنڈے سے دوستی کرنے کی ٹھانی اور اس کو بیڑی پلانے لگا۔ پھر اس کے ساتھ جو گنڈہ رہتا تھا اس سے بھی دوستی کرلی، اور ایک دن ان دونوں کو سینما کے دو ٹکٹ یہ کہہ کر دے دیئے کہ میرے ایک دوست نے یہ ٹکٹ دیئے ہیں۔ پر میں تو جاؤں گا نہیں تم چلے جاؤ۔ فرخ خود اس ڈر سے نہیں گیا کہ وہاں کسی جان پہچان سے مڈبھیڑ ہوسکتی ہے، جب ان دو گنڈوں سے دوستی ہوگئی تو ایک دن فرخ نے اپنے دشمن کو ڈانٹ دیا اور اس طرح ڈانٹا کہ وہ سمجھ گیا کہ اب ”پھرک“ نے اپنی ٹولی بنائی ہے اور یہ خود بھی تگڑا ہے۔ فرخ کا تو خیال تھا کہ شاید ایک کشتی بھی لڑنا پڑ جائے اور وہ اس چیز کیلئے بھی تیار تھا لیکن گنڈا دب گیا۔ اس طرح فرخ نے یہ جھگڑا سر کرلیا۔ فرخ نے گنڈوں سے دوستی کرنے میں جتنا پیسہ لگایا، وہ اس کی اس زمانے کی حالت کو دیکھتے ہوئے بہت تھا کیونکہ اس زمانے میں کبھی کبھی تو اس کو فاقے بھی پڑ جاتے تھے۔ کھانے کا فرخ نے یہ بندوبست کیا تھا کہ تین چار خوانچے والے اسٹیشن کے پاس فٹ پاتھ پر تھوڑی تھوڑی دور پر دال روٹی اور بھاجی کے خوانچے لے کر بیٹھ جاتے تھے۔ مزدور ان سے کھانا خرید کر کھڑے کھڑے یا اکڑوں بیٹھ کر کھا لیا کرتے تھے۔ فرخ بھی کسی خوانچے والے سے کھانا لے کر اسی طرح کھا لیتا تھا۔ بس صرف اتنا اہتمام کرتا تھا کہ ایک اینٹ رکھ کر اس پر بیٹھ جاتا تھا اور کاغذ کا دسترخوان بچھا کر اس پر کھانا رکھ کر ٹھاٹ سے کھاتا تھا لیکن وہ کھاتا تھا دس ساڑھے دس بجے رات کو جب اس طرف سے سفید پوشوں کے گزرنے کا کوئی خاص امکان نہیں ہوتا تھا۔ دن کی بھوک مارنے کیلئے فرخ منڈی میں، اِدھر اُدھر سے کچی ترکاریاں اور سکھے پھل حاصل کرکے کھا لیتا تھا۔ کچھ دنوں کے بعد یہ صورت پیدا ہوگئی کہ جب آلو، بھنڈی، اروی کا وہ سودا ٹپا دیتا تو وہ ان کے چھ سات دانی چن کر نکال لیتا پھر منڈی میں چائے والے کی پتھر کے کوئلے کی انگیٹھی کے نیچے ان کو ڈال دیتا، وہ بھن جاتے ان میں سے آدھے وہ چائے والے کو دے دیتا اور آدھے نمک مرچ لگا کر خود کھا لیتا۔ نمک مرچ بھی چائے والے سے لے لیتا۔ اس طرح اس کی زندگی کے دن پورے ہونے لگے۔ فرخ کو کئی راتیں بلا کچھ کھائے پیئے بھی گزارنا پڑیں کیونکہ ٹکٹ خریدنا اور کانسٹیبل اور ریلوے والوں کو چائے پلانا اپنے کھانے سے زیادہ ضروری تھا، اس لئے جس دن فرخ کی آمدنی نہ ہوتی وہ بچی ہوئی رقم انہی کاموں میں خرچ کر ڈالتا۔ اس زمانے میں فرخ سے بعض ایسی حرکتیں سرزد ہوگئیں جس پر اس کو خود بھی بڑی حیرت ہوئی کہ میں ایسا بھی کرسکتا ہوں۔ وہ یہ کہ اس نے اسٹیشن کے چائے والے سے چار وقتوں میں چار پیالیاں لی تھیں لیکن جب حساب کرنے لگا تو اس نے کہا کہ میں نے صرف تین پیالیاں لی تھیں اور اتنے ہی کے پیسے دیئے۔ ایک مرتبہ فرخ نے چائے کی دکان پر رکھے ہوئے بسکٹوں میں سے چار اٹھا لئے لیکن جب پیسے دینے لگا تو کہا کہ میں نے صرف دو بسکٹ لئے تھے اور اتنے ہی دام دیئے۔ فرخ کو ایک اور زبردست پریشانی تھی وہ یہ کہ اس کے پاس کھدر کے صرف دو جوڑے تھے جن میں سے ایک کو کسی نے اس کے بستر کے نیچے سے اڑا دیا تھا، اب صرف ایک جوڑا رہ گیا تھا جو پہنتے پہنتے بالکل باورچی خانے کی صافی بن گیا تھا۔ اب اس کے دھونے کی صرف یہ صورت تھی کہ فرخ کسی دن منڈی نہ جائے یا وہاں سے دوپہر ہی کو واپس آجائے، پھر اپنے جوڑے کو دھو کر پھیلا دے خود لنگی باندھ کر بیٹھ جائے، جب وہ سوکھ جائے تب پہن لے لیکن ایسا وہ دو بار کرسکا۔ مشکل یہ تھی کہ منڈی کا کام کچھ ایسا تھا کہ کھدر دوسرے ہی دن میلا ہوجاتا تھا اور چوتھے دن تو واقعی باورچی خانے کی صافی بن جاتا تھا۔ جب فرخ دو بجے دن کو منڈی سے پیدل واپس آیا تو اس کا بے اختیار جی چاہتا کہ ذرا دیر کیلئے کہیں لیٹا رہوں لیکن زیادہ تر ایسا ہوتا تھا کہ کوئی بنچ خالی نہیں ملتی تھی، اگر وہ اس وقت کلرک روم سے بستر نکال لیتا تو پھر اسے چھوڑ کر کہیں جا نہیں سکتا تھا۔ اس مجبوری کا نتیجہ یہ ہوتا کہ فرخ صبح ساڑھے پانچ بجے سے رات کے گیارہ بجے تک زیادہ تر اپنی ٹانگوں پر رہتا، صرف موقع ملنے پر بنچ پر بیٹھ جاتا۔ لیٹنے اور آرام کرنے کا اسے ذرا بھی موقع نہ ملتا۔ کبھی کبھار وہ لائبریری چلا جاتا تھا لیکن تھکا ہوا اتنا ہوتا تھا کہ روزانہ کا اخبار پڑھنا دوبھر ہوجاتا تھا۔ فرخ اپنی زبردست جدوجہد میں لگا رہا اور ایک دن بھی اس کی ہمت نہ ٹوٹی، اس نے طے کرلیا تھا کہ جیسے بھی بنے گا اس کام میں گھس کر میں تھوڑی بہت آمدنی کی راہ ضرور نکال لوں گا، تاکہ سیاست میں کچھ آزادی سے کام کرسکوں، جب اپنی زندگی کو کسی ڈھنگ پر لگانے کی صرف یہی ایک راہ رہ گئی ہو تو اس راہ کے سب خطروں کو مول لینا ہی پڑے گا۔ اگر میں نے مہرجان کیلئے ایسی مصیبتیں جھیل لی ہیں تو ملک کیلئے کیوں نہیں جھیل سکتا ہوں؟۔ اس زمانے میں ہر دوسرے تیسرے دن فرخ کو کوئی نہ کوئی جاننے والا ضرور مل جاتا تھا جو فرخ کو دیکھتا کہ وہ اتنے میلے کپڑوں میں ہے اور چہرے پر ہوائیاں اڑ ہی ہیں تو وہ ضرور پوچھتا کہ کیا بات ہے لیکن فرخ ہمیشہ اس سوال کو ٹال دیتا تھا۔ رات جب فرخ زمین پر بستر بچھا کر لیٹتا تھا تو سوچتا تھا کہ یہ میں کیا کررہا ہوں، میں بھی کیا آدمی ہوں، میرے لئے تو مشتاق احمد ریاست میں شاندار ملازمت تلاش کررہے تھے اور نادرہ کہتی تھی کہ آپ اسے منظور کیوں نہیں کرلیتے ہیں، آپ بات کو سمجھتے کیوں نہیں ہیں لیکن میں ہوں کہ کوٹھی، موٹر، حکومت اور پرشوکت شریک حیات کو چھوڑ کر یوں ٹھوکریں کھا رہا ہوں – یہ سب کیوں کررہا ہوں۔ کبھی کبھی فرخ کو نادرہ کی یاد بہت شدت سے آکر ستاتی تھی وہ اس کی تصویر نکال کر دیکھنے لگتا، آنکھوں میں آنسو بھر آتے اور لبوں پر ایسی آہ آجاتی تھی کہ پاس لیٹنے والے مسافر اس کی طرف دیکھنے لگتے۔ فرخ اپنے کو سنبھالنے کی کوشش برابر کرتا رہا۔ اپنے سے کہتا تھا کہ یار فرخ یا تو ہار مان لو اور جاکر سرکاری یا نجی نوکری کرلو۔ خان بہادر ہوسکتا ہے کہ اب بھی سفارش کردیں۔ نہیں تو اگر تم خود جا کر ڈپٹی کمشنر سے کہو گے کہ میں باز آیا کانگرس کی زندگی سے تو وہ تمہاری ضرور تھوڑی بہت مدد کرے گا اور نوکری دلوائے گا۔ اور اگر ہار نہیں ماننا ہے اور مقابلہ ہی کرنا ہے تو بہادری سے مقابلہ کرو اور اس طرح آنسو نہ بہاؤ۔ آخر رفتہ رفتہ فرخ کو اپنے اندر مضبوطی محسوس ہونے لگی اور مضبوطی کے اس احساس پر وہ خوشی بھی محسوس کرنے لگا۔ یہ عالم تھا کہ اچانک عجب حادثہ پیش آگیا جس سے یہ عمارت ڈھ گئی۔ فرخ ایک رات کو میلے کپڑوں، الجھے بالوں، بڑھے ہوئے خط اور ایسے چہرے کو لئے ہوئے جو دھوپ تپتے اور بغیر صابن کے دھلنے کی وجہ سے کالا، کھردرا اور میلا ہوگیا۔ فٹ پاتھ پر کھانا کھا رہا تھا کہ اس طرف سے ایک تانگے پر نادرہ کچھ عزیزوں کے ساتھ گزری۔ سب لوگ بہت عمدہ کپڑوں میں تھے، شاید کسی تقریب سے آرہے تھے اور کسی وجہ سے موٹر پر نہ آسکے تھے، نادرہ اور فرخ کی آنکھیں چار ہوگئیں۔ نادرہ نے فرخ کو دیکھا تو لیکن اس حالت میں فرخ کو دیکھا کہ اس کو اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔ فرخ کو اس بات کا بھی احساس ہوا کہ نادرہ مجھے دیکھ کر بھول چکی ہو اور اس بات کا بھی کہ اس کا سلام کیلئے اٹھ رہا تھا لیکن جھجھک کر رک گیا۔ فرخ پر اس واقعہ سے بجلی کر گئی اور اس نے صبر کا جو محل اپنے دل کے اندر بنایا تھا وہ ریت کا گھروندا ثابت ہوا، اس نے ساری رات تڑپ تڑپ کر گزاری مگر صبح کے قریب اسے اپنے اندر سے ایک آواز آتی ہوئی محسوس ہوئی۔ وہ آواز کہنے لگی۔ ”فرخ جس راہ میں تیرے باپ نے جان دی ہو اُسی راہ پر تجھے بھی جانا ہے۔ چاہے تو جیئے یا مرے۔ ہندوستان آزاد کرانا ہے اور بھوکے ہندوستان کے پیٹ میں روٹی ڈالنا ہے۔“ لیکن میں کر کیا رہا ہوں۔ منڈی میں اور اسٹیشن پر جھک مار رہا ہوں نہ کسی جلسے میں شرکت کر پاتا ہوں نہ دورے کر پاتا ہوں اودھار تو یہ ہے کہ اخبار تک نہیں پڑھ پاتا ہوں۔ اتنے دنوں میں ایک مضمون تک نہ لکھ سکا۔ ایک رات فرخ نے بہت پریشانی سے بھرا خواب دیکھا جس سے آنکھ کھل گئی اور پھر نیند نہیں آئی، وہ سوچنے لگا کہ ایسی زندگی سے کیا حاصل؟ نہ مجھے کچھ مل رہا ہے اور نہ میں کسی کو کچھ دے رہا ہوں۔ وہ دیر تک انہی فکروں میں غلطاں و پیچاں رہا کہ صبح کی سفیدی آسمان پر پھل گئی۔ اس وقت فرخ کو اپنے بابا یاد آئے اور ان کی ایک ایسی بات یاد آئی جو اس کے دماغ میں موجود تو تھی پر ایسے گوشے میں اور اس حالت میں کہ فرخ نے اس کو کبھی قابل توجہ سمجھا ہی نہیں تھا۔ ابا نے ایک خط دیا تھا اور کہا تھا کہ فلاں فلاں شخص کو خفیہ طور سے دے آؤ، اس وقت فرخ ہوگا کوئی سات برس کا لیکن اس نے یہ کام بہت ہی خوبی سے کر ڈالا۔ باپ نے چمٹا لیا، پیار کیا اور کہنے لگا۔ ”یہ ہے وہ بیٹا جو اگر میں ناکام رہا تو اس پیام کو جو مجھے میرے پیر نے دیا تھا آنے والی نسلوں تک پہنچائے گا“!۔ ”کیسا پیام لایئے ابھی پہنچا دوں“، ابا زور سے ہنسے۔ ”بیٹا یہ پیام ہے ہندوستان کی آزادی کا“۔ ”کہاں ہے وہ؟“۔ ”میرے دل میں“۔ ”آپ کو کس نے دیا تھا“؟ ”ایسے شخص نے جسے میں ویسا ہی بزرگ سمجھتا تھا جیسا اپنے باپ کو۔ اور جو ہندوستان کی آزادی کی حسرت لے کر دینا سے رخصت ہوگیا۔“ ”ہندوستان کی آزادی۔۔۔ یہ کیسے ملے گی؟“۔ ”ہندوستان سے ہم انگریزوں کو نکال دیں گے“۔ یہ کہتے وقت ابا کی آواز میں ایک قسم کا کرب بھی تھا اور حسرت بھی۔ یہی وہ چیز تھی جو فرخ نے آج پہلی مرتبہ محسوس کی اور اسی احساس سے یہ واقعہ بے حد اہم ہوگیا۔ فرخ نے اپنے سے کہا۔ سمجھتا ہے تو کیسی عظیم امانت ہے تیرے دل میں!۔ اس احساس سے فرخ کی عجیب سی نفسیاتی کیفیت ہوگئی۔ اسے ایسا محسوس ہوا جیسے میں اپنی ذاتی تمناؤں، آرزوؤں رنج و خوشی سے بلند ہوں۔ ایک بڑے آئینے کی طرح ہوں جن سے منعکس ہو کر پچھلی نسل کی تمنائیں آنے والی نسل تک جا رہی ہیں جیسے جب تیز آندھی چل رہی ہو اس وقت کوئی شخص اپنے کمرے کے، جو سب سے اونچی منزل پر واقع ہو، ہر طرف کھڑکیاں اور دروازے کھول دے اور بگولوں کی آمدورفت کی راہ میں ہر رکاوٹ کو دور کردے۔ اس وقت اس کے کمرے اور باہر کی فضا میں جو ہم آہنگی اور سلسلہ بندھ جاتا ہے وہی اس وقت فرخ کے دل سے اور دنیا سے بندھ گیا تھا۔ اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے کہ میں ایک ایسا انسان ہوں جس کے اندر ننگے بھوکے، بیمار اور جاہل سب موجود ہیں اور فریاد کررہے ہیں کہ ہم کو ہماری بُری حالت سے نکال لو۔ یہ احساس فرخ پر آیا کچھ منٹ ٹھہرا اور پھر چلا گیا لیکن اس کی یاد اس کے دل میں رہ گئی اور پھر وہ یاد ایک کسوٹی سی بن گئی، دنیا کے معاملات کو ناپنے کی۔ جب فرخ بہت پریشانی اور دنیا سے عاجز ہوتا اس وقت وہ اپنے اس احساس کو یاد کرتا اور اسے پھر دل میں لانے کی اور اپنے اوپر طاری کرنے کی کوشش کرتا۔ اس کوشش میں کبھی کامیابی ہوتی اور کبھی نہ ہوتی، لیکن دونوں حالتوں میں فرخ کو اپنے اندر ایک طرح کا بھرا پن محسوس ہوتا اور اپنی پریشانیوں کو اس بلندی سے دیکھنے لگتا جیسے کوئی اپنے ہاتھ میں چبھی ہوئی پھانس کو دیکھے۔

مطلقہ خبریں

غزل

غزل

غزل