شیخ لیاقت علی
قیامِ پاکستان کے بعد ماہ اگست میں ریلیز ہونے والی پہلی پاکستانی فیچر ’’تیری یاد‘‘ 7 اگست 1948ء بروز عیدالفطر لاہور کے پربھات سینما کی زینت بنی۔ یہ فلم باکس آفس پر بُری طرح ناکام ہوئی مگر اپنے اس اختصاص کی بنا پر کہ وہ پاکستان میں تیار ہونے والی پہلی فیچر بنی۔ بعدازاں ماہ اگست میں ہر سال فلمیں ریلیز ہوتی رہیں لیکن پہلی قابل ذکر کامیاب فلم ان میں جو سامنے آئی وہ 3 اگست 1962ء کے دن ’’چندا‘‘ تھی جس کے ہدایت کار احتشام اور موسیقار روبن گھوش تھے۔ ’’چندا‘‘ سابقہ مشرقی پاکستان میں بننے والی پہلی اُردو فلم ہے جو شبنم کی بھی پہلی اُردو فلم ہے اور اداکار حمان کی بھی یہ پہلی اُردو فلم ہے۔ اس فلم نے سال 1962ء کی بہترین اُردو فلم کا نگار ایوارڈ حاصل کیا اور شبنم کو بھی اسی فلم کے لئے بہترین معاون اداکارہ کا نگار ایوارڈ حاصل ہوا۔ 10 اگست 1962ء کو نامور ہدایت کار ایس ایم یوسف کی گھریلو فلم ’’اولاد‘‘ ریلیز ہوئی جس میں وحید مراد نے حبیب اور نیئر سلطانہ کے بیٹے کا کردار ادا کیا۔ ’’اولاد‘‘ اپنی بہترین کہانی، فنکاروں کی کردار نگاری اور موسیقار اے حمید کی بہترین موسیقی کی وجہ سے شاندار گولڈن جوبلی سے ہمکنار ہوئی۔ ماہ اگست کی پہلی کامیاب پنجابی فلم ہدایت کار حیدر چوہدری کی ’’تیس مار خان‘‘ ہے جو 30 اگست 1963ء کو ریلیز ہوئی۔ عوامی اداکار علاؤ الدین نے فلم کا ٹائٹل رول کیا۔ اداکارہ شیریں اسی فلم سے متعارف ہوئیں اور حیدر چوہدری بھی بطور ہدایت کار اسی فلم سے متعارف ہوئے۔ 25 اگست 1967ء کو ہدایت کار پرویز ملک کی گھریلو، رومانی، نغماتی فلم ’’دوراھا‘‘ ریلیز ہوئی۔ وحید مراد، شمیم آرا اور دیبا کے گرد گھومتی اس کامیاب فلم کی زبردست موسیقی سہیل رعنا نے دی اور اسے بے حد سراہا گیا۔
فلمساز و مصنف، ہدایت کار ایم صادق مرحوم کی پاکستان میں واحد فلم ’’بہاروں پھول برساؤ‘‘ 11 اگست 1972ء کو ریلیز ہوئی۔ اس شاندار گولڈن جوبلی میں وحید مراد اور رانی گرد کہانی گھومتی تھی۔ فلم کی موسیقی ناشاد نے اور نغمات شیون رضوی تھے۔ نغمات اس فلم کے بہت مقبول ہوئے۔ 10 اگست 1973ء کے دن دو اہم کامیاب فلمیں ’’آس‘‘ اور ’’انمول‘‘ سینما اسکرینز کی زینت بنیں۔ علی سفیان آفاقی ’’آس‘‘ کے اور پرویز ملک ’’انمول‘‘ کے ہدایت کار تھے۔ نثار بزمی دونوں فلموں کے موسیقار اور مسرور انور دونوں ہی فلموں کے نغمہ نگار تھے۔ محمد علی اور شبنم کی ’’آس‘‘ گولڈن جوبلی سے اور شبنم اور شاہد کی ’’انمول‘‘ ڈائمنڈ جوبلی سے ہمکنار ہوئی۔ ’’آس‘‘ کو 8 نگار ایوارڈ اور ’’انمول‘‘ کو 2 نگار ایوارڈ ملے۔ 9 اگست 1974ء کو ہدایت کار سید سلیمان، نغمہ نگار مسرور انور اور موسیقار نثار بزمی کی گولڈن جوبلی نغماتی و رومانی فلم ’’انتظار‘‘ ریلیز ہوئی، جس میں ندیم، شبنم اور ممتاز کے علاوہ بابرا شریف نے بھی اہم کردار ادا کئے۔ یہ بابرا شریف کی ریلیز کے اعتبار سے پہلی فلم بھی تھی۔ 23 اگست 1974ء کو ہدایت کار رحمت علی کی ڈائمنڈ جوبلی ہٹ پنجابی فلم ’’خطرناک‘‘ ریلیز ہوئی۔ لاہور اور کراچی دونوں سرکٹ میں ڈائمنڈ جوبلی منانے والی فلم میں یوسف خان، نیلو شامل تھے۔ نیلو نے اس فلم کے لئے بہترین اداکارہ اور مسعود الرحمن نے بہترین عکاس کا نگار ایوارڈ حاصل کیا۔ 8 اگست 1975ء کو غلام محی الدین اور بابرا شریف کی شاہکار فلم ’’میرا نام ہے محبت‘‘ ریلیز ہوئی۔ اس فلم کی کہانی ایرچ سیگل کے مشہور ناول ’’لو اسٹور‘‘ سے ماخوز تھی۔ شباب کیرانوی اس فلم کے مصنف اور ہدایت کار تھے۔ نغمہ نگار مسلم فاضلی کے نغمات کو موسیقار ایم اشرف نے خوبصورت دھنوں میں ڈھالا اور سارے ہی نغمات ایک سے بڑھ کر ایک ثابت ہوئے۔ یہ فلم دوست ملک چین میں بھی ڈب کرکے پیش کی گئی اور وہاں بے حد مقبول ثابت ہوئی۔ اس فلم کو 7 نگار ایوارڈ حاصل ہوئے۔ اسی فلم کے ساتھ 8 اگست کو ہدایت کار حسن عسکری کی شاہکار پنجابی فلم ’’وحشی جٹ‘‘ بھی ریلیز ہوئی۔ سلطان راہی کے ٹائٹل رول پر مبنی اس گولڈن جوبلی ہٹ فلم کی کہانی احمد ندیم قاسمی کے مشہور افسانے ’’گنڈاسہ‘‘ سے ماخوز تھی۔ اس فلم کو 5 نگار ایوارڈ ملے تھے۔ یکم اگست 1975ء کو ایک تاریخ رقم ہوئی جب ایک ہی دن ایک ہی ہیرو اور ایک ہی ہیروئن کی دو فلمیں ایک ساتھ ریلیز ہوئیں۔ یہ ہیرو اور ہیروئن ندیم اور شبنم تھے اور ان فلموں کے نام تھے ’’اناڑی‘‘ اور ’’پہچان‘‘۔ سید سلیمان ’’اناڑی‘‘ کے اور پرویز ملک ’’پہچان‘‘ کے ڈائریکٹر تھے۔ صبیحہ خانم نے دونوں فلموں میں کریکٹر رولز کئے تھے اور دونوں فلموں نے ڈائمنڈ جوبلی منانے کا اعزاز بھی حاصل کیا۔ 25 اگست 1979ء کی عیدالفطر پر گولڈ جوبلی ہٹ فلم ’’خوشبو‘‘ اسکرینز پر مہکی۔ نذر شباب کی اس نغماتی، رومانی فلم میں رانی، شاہد اور ممتاز شامل تھے۔ ایم اشرف نے مسرور انور کے نغمات کی عمدہ دھنیں بنائیں۔
2 اگست 1981ء کی عیدالفطر پر ہدایت کار اقبال کشمیری کی گولڈن جوبلی ہٹ فلم ’’الٰہ دین‘‘ ریلیز ہوئی جس میں بابرا شریف، فیصل الرحمان شامل تھے۔ اسی عیدالفطر پر تین پنجابی فلمیں شیر خان، سالا صاحب اور چن دریام بھی ریلیز ہوئیں اور ان تینوں فلموں نے لاہور سرکٹ میں شاندار ڈائمنڈ جوبلیاں منائیں۔
27 اگست 1985ء کی عیدالاضحی پر ہدایت کار نذرالاسلام کی دو کامیاب فلمیں ’’دیوانے دو‘‘ اور ’’پلکوں کی چھاؤں میں‘‘ ریلیز ہوئیں۔ 25 اگست 1989ء کو ہدایت کار حیدر چوہدری کی پلاٹینم جوبلی فلم ’’خدا بخش‘‘ ریلیز ہوئی۔ سلطان راہی، کویتا اس کامیاب پنجابی فلم میں شامل تھے۔ 13 اگست 1999ء ہدایت کار حسن عسکری کی کامیاب فلم ’’جنت کی تلاش‘‘ ریلیز ہوئی۔ اس آٹھ نگار ایوارڈ یافتہ فلم میں ریشم، شان، سعود شامل تھے۔ 25 اگست 2000ء کو سپر ہٹ پنجابی فلم ’’مہدی والے ہتھ‘‘ ریلیز ہوئی۔ فلمساز و ہدایت کار، مصنف و مکالمہ نویس سید نور کی اس پلاٹینم جوبلی ہٹ فلم میں صائمہ، معمر رانا، بابر علی شامل تھے۔ اس فلم نے گیارہ نگار ایوارڈ حاصل کئے تھے۔ 12 اگست 2005ء فلمساز و ہدایت کارہ ریما کی بطور ہدایت کارہ پہلی فلم ’’کوئی تجھ سا کہاں‘‘ ریلیز ہوئی۔ خلیل الرحمان قمر نے کہانی اور مکالمے لکھے تھے۔ کاسٹ میں ریما، معمر رانا شامل تھے۔ لاہور میں یہ فلم گولڈن جوبلی اور کراچی میں بطور جوبلی سے ہمکنار ہوئی۔