Saturday, July 12, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

ماہِ جنوری کی ریلیز بعض معیاری کامیاب فلمز

قیام پاکستان کے بعد عیسوی کیلنڈر کے پہلے ماہ جنوری میں سینما اسکرین کی زینت بننے والی اولین پاکستانی فلم ’’جہاد‘‘ ہے جو 7 جنوری 1950ء کو ریلیز ہوئی۔ اس فلم کے فلمساز و ہدایت کار اور ہیرو ظہور راجہ تھے۔ نغمہ نگار تنویر نقوی اور موسیقار کریم داد خان تھے۔ یہ فلم باکس آفس پر کامیاب نہ ہوسکی۔ ماہ جنوری میں نمائش پذیر ہونے والی پہلی معیاری و کامیاب فلم ’’غلام‘‘ ہے۔ فلمساز و ہدایت کار انور کمال پاشا کی یہ معیار فلم 7 جنوری 1953ء کو ریلیز ہوئی۔ اس فلم کی کہانی انور کمال پاشا کے والد حکیم احمد شجاع نے لکھی۔ موسیقی ماسٹر غلام حیدر نے دی اور نغمہ نگاراں میں قتیل شفائی، سیف الدین سیف، طفیل ہوشیارپوری اور ساغر صدیقی شامل ہیں۔ صبیحہ خانم، سنتوش کمار، راگنی، شمیم، شمی اور ہمالیہ والا غلام کی کاسٹ میں شامل ہیں۔ یہ فلم انور کمال پاشا کے تحریر کردہ مکالموں اور اُن کی معیاری ہدایات کے باعث پاکستان کے ابتدائی سالوں کی ایک یادگار فلم شمار ہوتی ہے۔
انور کمال پاشا ہی کی ایک معیاری اور کامیاب فلم ’’قاتل‘‘ 22 جنوری 1955ء کو ریلیز ہوئی۔ پاشا جی نے اس فلم میں تین نئے چہروں اسلم پرویز، مسرت نذیر اور نیئر سلطانہ کو بالترتیب ضیاء، چاندنی اور نازلی کے ناموں سے متعارف کرایا۔ حکیم احمد شجاع نے اس فلم کی بھی کہانی لکھی اور ماسٹر عنایت حسین نے موسیقی مرتب کی۔ قاتل کے گیت نگار قتیل شفائی، سیف الدین سیفؔ اور طفیل ہوشیارپوری ہیں۔ فلم کے گیتوں میں اقبال بانو کا گایا دلکش گیت ’’الفت کی نئی منزل کو چلا یوں بانہیں ڈال کے بانہوں میں‘‘ اور کوثر پروین کی آواز میں یہ دلکش گیت ’’اومینا نہ جانے کیا ہوگیا کہاں دل کھو گیا اومینا‘‘ بے حد مشہور ہوئے۔ صبیحہ، سنتوش کار، ایم اجمل، ہمالیہ والا، آزاد اور آصف جاہ کاسٹ میں شامل ہیں۔ 6 جنوری 1956ء کو فلمساز آغا جی اے گل، ہدایت کار ایم ایس ڈار، کہانی نویس انور کمال پاشا، مکالمہ نگار بابا عالم سیاہ پوش، موسیقار غلام احمد چشتی اور گیت نگاروں طفیل ہوشیار پوری اور ایف ڈی شرف کی کامیاب پنجابی فلم ’’دُلا بھٹی‘‘ ریلیز ہوئی۔ لالہ سدھیر نے دُلا بھٹی اور صبیحہ خانم نے نوراں کے کردار میں باکمال اداکاری کے جوہر دکھائے۔ کاسٹ میں علاؤالدین، آصف جاہ، آشا بوسلے، ایم اسماعیل اور شیخ اقبال شامل ہیں۔ دُلا بھٹی کے نغمات زبان زد عام ہوئے بالخصوص منور سلطانہ کا گایا یہ گیت ’’واسطہ ای رب دا تو جاویں وے کبوترا‘‘ تو بہت زیادہ مقبول ہوا۔ دُلا بھٹی نے نہ صرف پاکستان بلکہ ہندوستان میں بھی ریکارڈ بزنس کیا تھا۔ 5 جنوری 1962ء کو فلمساز و ہدایت کار خلیل قیصر کی معرکہ آرا معیاری کامیاب فلم ’’شہید‘‘ ریلیز ہوئی۔ ریاض شاہد کی کہانی اور مکالموں اور رشید عطرے کی دلکشی موسیقی سے آراستہ اس فلم نے مختلف شعبوں میں 9 نگار ایوارڈز حاصل کئے۔ اس فلم میں مسرت نذیر، اعجاز، علاؤالدین، حُسنہ، ساقی، دلجیت مرزا اور آغا طالش نے زبردست اداکاری کی۔ فیض احمد فیض، منیر نیازی، تنویر نقوی، طفیل ہوشیارپوری اور قتیل شفائی نے شہید کے گیت تحریر کئے۔ شہید کے مقبول گیتوں میں اُس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستوں (نسیم بیگم، منیر نیازی) نثار میں تیری گلیوں پہ اے وطن کہ جہاں چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اُٹھا کے چلے (منیر حسین، فیض احمد فیض) اور میری نظریں ہیں تلوار کس کا دل ہے روکے وار توبہ توبہ استغفار (نسیم بیگم، تنویر نقوی) شامل ہیں۔ 2 جنوری 1968ء کی عیدالفطر پر ظفر شباب کی بطور ڈائریکٹر اور ایم اشرف کی بطور سولو موسیقار پہلی فلم ’’سنگدل‘‘ ریلیز ہوئی۔ فلم کے کہانی نویس اور فلمساز شباب کیرانوی تھے اور خوبصورت عکاسی ریاض بخاری نے کی، سپر اسٹار ندیم کی سابقہ مغربی پاکستان (حالیہ پاکستان) میں ’’سنگدل‘‘ پہلی فلم تھی جس میں اُن کے ہمراہ دیبا، ننھا، رنگیلا، منور ظریف، روزینہ، زینت، کمال ایرانی، صاعقہ، زرقا اور مسعود اختر (نیا چہرہ) نے کردار نگاری کی۔ اس فلم کے سب ہی نغمات ایک سے بڑھ کے ایک ثابت ہوئے، جن میں بالخصوص یہ نغمات ’’ہو سن لے او جانِ وفا تو ہے دُنیا میری اے میری زندگی کبھی ہوں گے نہ ہم تم جدا (احمد رشدی، خواجہ پرویز) کہتے ہیں سبھی مجھ کو دیوانہ تمہارا، ماتھے پہ لکھا ہے میرے افسانہ تمہارا (احمد رشدی، شہاب کیرانوی) دل کو جلائے تیرا پیار ہو ہو ڈر سو ہے لاگے سیاں کیا ہوگا آگے سیاں (مالا، خواجہ پرویز) او میرے شوخ صنم ہوا دیوانہ تیرا جب سے مجھے دیکھ لیا (مالا، مسعود رانا، خواجہ پرویز)، ’’سنگدل‘‘ نے کرچی میں اپنی نمائش کے شاندار 51 ہفتے مکمل کئے۔ ’’ریگل‘‘ اس کا میں سینما تھا۔ فلمساز و ہدایت کار خالد خورشید کی معیاری نغماتی کامیاب گولڈن جوبلی فلم ’’نیند ہماری خواب تمہارے‘‘ 8 جنوری 1971ء کو ریلیز ہوئی۔ ایم اشرف نے کلیم عثمانی کے لکھے سب ہی نغمات کی دُھنیں زبردست بنائیں۔ اس فلم میں چاکلیٹی ہیرو وحید مراد، دیبا، آغا طالش، عالیہ، نرالہ، شاہد پنڈت شامل تھے۔ مقبول نغمات میں مسعود رانا کے یہ سدابہار نغمات شامل ہیں۔’’میرا محبوب آگیا، من میرا لہرا گیا، دل کی اُمنگیں ہوئیں جواں‘‘۔ ’’ناراض نہ ہو تو عرض کروں دل تم سے محبت کرتا ہے‘‘۔ ’’یہ دُنیا ہے دولت والوں کی انسان یہاں انسان نہیں‘‘۔
اس فلم میں مہدی حسن کا بھی یہ دلکش نغمہ شامل ہے ’’جو بظاہر اجنبی ہیں غم سے بیگانے بھی ہیں، اُن کی نظروں میں ہمارے دل کے افسانے بھی ہیں۔ کراچی کا سابقہ سینما کوہ نور اس فلم کا مین تھیٹر بنا تھا۔ سال 1972ء کی ماہ جنوری میں کامیاب فلمیں افسانہ زندگی کا (7 جنوری، شباب کیرانوی)، میرے ہم سفر (21 جنوری، پرویز ملک کی بطور ڈائریکٹر پہلی رنگین فلم)، خلش (27 جنوری، لئیق اختر کی یہ فلم رضیہ بٹ کے ناول ’’لغزش‘‘ سے ماخوز ہے) اور پنجابی فلم خان چاچا (27 جنوری، ایم اکرم، کریکٹر ایکٹر ساون نے ٹائٹل رول کیا۔ اس فلم نے لاہور میں ڈائمنڈ جوبلی منائی تھی) سینماز کی زینت بنیں۔
16 جنوری 1973ء کی عیدالاضحی پر سپر ہٹ پنجابی فلم ’’ضدی‘‘ ریلیز ہوئی اور معروف ڈائریکٹر اسلم ڈار کی کامیاب فلم زرق خان بھی اسی دن ریلیز ہوئی جس میں سلطان راہی نے ٹائٹل رول ادا کیا ہے۔ اقبال کاشمیری نے ضدی کا ٹائٹل رول یوسف خان سے کروایا جو انہوں نے خوب ادا کیا۔ ضدی کی فقیدالمثال کامیابی میں ماسٹر عبداللہ کے کمپوز کردہ گیتوں کا بہت بڑا حصہ ہے۔
5 جنوری 1974ء کے دن لاہور سرکٹ میں پلاٹینم جوبلی ہٹ پنجابی فلم ’’عشق میراناں‘‘ اور شاندار سلور جوبلی فلم ’’سماج‘‘ ریلیز ہوئیں۔ ایم اکرم اور جعفر شاہ بخاری بالترتیب ان فلموں کے ڈائریکٹرز ہیں۔ عشق میراناں نے لاہور میں شاندار پلاٹینم جوبلی منائی جبکہ ’’سماج‘‘ جو کراچی میں 11 جنوری 1974ء کو ریلیز ہوئی۔ صرف ایک ہفتے کی دوری سے گولڈن جوبلی کرنے سے محروم رہی۔ ’’سماج‘‘ کی خاص بات یہ ہے کہ سپر اسٹار ندیم نے اپنے دورِ عروج میں منفی کردار کیا۔ عشق میراناں میں نذیر علی اور ’’سماج‘‘ میں اے حمید نے لاجواب موسیقی دی۔ بالخصوص مہدی حسن کا گایا یہ نغمہ ’’یہ اعجاز ہے حسن آوارگی کا جہاں بھی گئے داستان چھوڑ آئے‘‘ جسے حبیب جالب نے لکھا، بے حد مشہور ہوا۔ پرویز ملک کی ڈائمنڈ جوبلی فلم ’’تلاش‘‘ 23 جنوری 1976ء کو ریلیز ہوئی۔ کہانی نویس و نغمہ نگار مسرور انور اور موسیقار نثار بزمی کی یہ شاندار فلم کراچی کے سابقہ مین سینما پلازہ پر 42 ہفتے اور مجموعی طور پر 116 ہفتے نمائش پذیر رہی۔ فلم کے نغمات بے حد مقبول ہوئے۔ نامور ہدایت کار نذرالاسلام کی کامیاب و معیاری، نغماتی پلاٹنیم جوبلی ہٹ فلم ’’امبر‘‘ 6 جنوری 1978ء کو کراچی کے سابقہ مین سینما کوہ نور کی زینت بنی۔ اس فلم نے شاندار 85 ہفتے نمائش کے مکمل کئے اور فلم کی موسیقی روبن گھوش نے نہایت ہی شاندار دی تھی۔ سب ہی نغمات بے حد مقبول ہوئے اور آج بھی تازہ دم ہیں۔ 19 جنوری 1979ء کو گولڈن جوبلی ہٹ فلم ’’بہن بھائی‘‘ کراچی کے سابقہ مین سینما پلازہ پر ریلیز ہوئی۔ نذر شباب کی ڈائریکٹ کردہ اس گھریلو فلم کی دلکش موسیقی کمال احمد نے دی اور یہ فلم کراچی میں کل 54 ہفتے نمائش پذیر رہی۔ 11 جنوری 1980ء کو نذرالاسلام کی ڈائریکٹ کردہ ایک اور سپرہٹ پلاٹنیم جوبلی فلم ’’بندش‘‘ کراچی کے سابقہ مین سینما ’’اسٹار‘‘ کی زینت بنی۔ پاکستان اور انڈونیشیا کی یہ نغماتی معاشرتی فلم بشیر نیاز کی عمدہ کہانی، فنکاروں کے بے مثل کردار نگاری اور روبن گھوش کی دلآویز موسیقی کی وجہ سے کراچی میں 88 ہفتے ہر خاص و عام کی توجہ کا مرکز بنی رہی۔ ندیم نے امبر کی طرح بندش میں بھی عمدہ اداکاری کی۔ 2 جنوری 1981ء کو ہدایت کار سید سلیمان کی واحد پلاٹینم جوبلی فلم ’’منزل‘‘ کراچی کے مین سینما نشمین پر ریلیز ہوئی۔ معروف ٹی وی اداکار وسیم عباس اسی فلم سے متعارف ہوئے۔ موسیقار کمال احمد تھے اور اس فلم نے کراچی میں بڑی کامیابی سے اپنی نمائش کے 82 ہفتے مکمل کئے۔
1982ء کی ماہ جنوری میں نذر شباب کی گولڈن جوبلی فلم ’’خوبصورت‘‘ کراچی کے اسٹار سینما میں 15 جنوری کو اور میڈم سنگیتا کی پلاٹنیم جوبلی بٹ مزاحیہ فلم ’’میاں بیوی راضی‘‘ مین سینما کوہ نور پر ریلیز ہوئی۔ دونوں فلموں کے ہیرو ندیم ہیں۔ خوبصورت نے 57 ہفتے اور میاں بیوی راضی نے 80 ہفتے مکمل کئے۔ ماہ جنوری کی دیگر کامیابی معیاری فلموں میں یہ کیسے ہوا (6 جنوری 1948ء)، بے نظیر قربانی (11 جنوری 1985ء)، کالے چور (4 جنوری 1991ء)، ویری گڈ دنیا ویری بیڈ لوگ (30 جنوری 1998ء) یہ سید سلیمان کی بطور ڈائریکٹر آخری فلم ہے)، گنز اینڈ روزز (19 جنوری 1999ء، یہ معروف ہیرو شان کی بطور ڈائریکٹر پہلی فلم ہے)، گھر کب آؤ گے (9 جنوری 2000ء، اقبال کاشمیری نے اس فلم نے لاہور میں پلاٹینم جوبلی منائی)، بھولا سنیارا (22 جنوری 2005ء، پرویز رانا کی اس پنجابی فلم نے لاہور میں گولڈن جوبلی منائی)

مطلقہ خبریں

غزل

غزل

غزل