Friday, January 31, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

ماضی کی فلمی معلومات

فلم ’’انسان بدلتا ہے‘‘ (1961) وحید مراد کی بطور فلمساز پہلی فلم تھی، جسے نئے ڈائریکٹر منور رشید نے ڈائریکٹ کیا تھا۔ مزاحیہ اداکار لہری کی بہترین مزاحیہ اداکار کے طور پر بھی یہ پہلی فلم تھی۔ انہیں نگار ایوارڈ تفویض کیا گیا تھا۔ اسی فلم میں ہیرو درپن کے والد کا کردار اسی فلم کے موسیقار ظفر خورشید نے پرفارم کیا تھا۔ ماضی کا ایک معروف فلمساز ادارہ ’’اوریگا پکچرز‘‘ تھا، جس کے بینر تلے فلمساز شیخ عبدالرشید نے فلم ہمراز (1967ء ڈائریکٹر خواجہ خورشید انور)، فلم دل دیا درد لیا (1968ء ڈائریکٹر خالد خورشید)، فلم لو ان یورپ (1970ء ڈائریکٹر جمیل اختر) فلم خاموش نگاہیں (1971ء ڈائریکٹر جمیل اختر) اور فلم پیاسا (1973ء ڈائریکٹر حسن طارق) پروڈیوس کیں۔ آج کے معروف فلم ڈسٹری بیوٹر شیخ امجد رشید انہی شیخ عبدالرشید کے صاحبزادے ہیں۔ ماضی کے معروف فلمساز ادارے ایورریڈی پکچرز کے روح رواں آنجہانی جے سی آنند (جگدیش چند آنند) تھے۔ انہوں نے بطور فلمساز  13 بلیک اینڈ وائٹ فلمیں سسی، سوہنی، حاتم، مس  56، عشق لیلیٰ، نور اسلام، حسرت، عالم آرا، دلہن، حاتم طائی، شعلہ و شبنم، تاج محل اور نازنین بنائیں۔  اپنے وقت کی نامور ہیروئن مسرت نذیر نے پہلی بار ٹائٹل رول اُردو فلم مرزا صاحبان  (1956) میں ادا کیا، جس میں وہ صاحبان بنیں اور اداکار سدھیر مرزا بنے تھے۔ مسرت نذیر نے انور کمال پاشا کی فلم قاتل (1951) سے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا اور ڈائریکٹر منور رشید کی فلم بہادر (1967) اُن کی بطور ہیروئن آخری فلم تھی۔ وہ طویل عرصہ سے کینیڈا میں رہائش پذیر ہیں۔ پشتو فلم ’’کلہ خزاں کلہ بہار‘‘ سے فلمی کیریئر کا آغاز کرنے والے اداکار ہمایوں قریشی کا اصل نام عبدالسلام ہے۔ معروف فلمساز و ہدایت کار ضیاء سرحدی کا اصل نام فضل قادر سیٹھی تھا۔ اداکارہ خانم کا اصل نام عذرا جہاں ہے۔ ڈائریکٹر ریاض احمد کی فلم قبیلہ سے انہوں نے بطور چائلڈ اسٹار کیریئر شروع کیا تھا۔اس غیرتِ ناہید کی ہر تان ہے دیپکشعلہ سا لپک جائے آواز تو دیکھو اس شعر کے تناظر میں پورا اترنے والی ماضی کی نامور گلوکارہ ناہید اختر کا گایا ہوا اب تک کا آخری گیت فلم ’’دل تو پاگل ہے‘‘ میں اداکارہ آفرین پر فلمایا گیا ہے، جس کے بول ہیں ’’میں اکیلی تھی تو نے سہارا دیا‘‘۔ فلم یہودی کی لڑکی (1963) سے بطور نغمہ نگار فلمی کیریئر کا آغاز کرنے والے شیون رضوی نے بطور ڈائریکٹر دو فلمیں ’’میری زندگی ہے نغمہ‘‘ اور ’’بات پہنچی تیری جوانی تک‘‘ ڈائریکٹ کی تھی۔ پہلی فلم گولڈن جوبلی سے ہمکنار ہوئی اور دوسری فلم ناکام ثابت ہوئی۔ 9 جولائی 2017ء کو لیجنڈ فنکار ندیم (اصل نام مرزا نذیر بیگ) خیر سے  76 برس کے ہورہے ہیں۔ بطور پہلے بیک سنگر انہوں نے ڈھاکہ کی دو فلموں ’’کیسے کہوں‘‘ (1965) اور ’’بے گانہ‘‘ (1966) میں سنگنگ کی اور فلم ’’چکوری‘‘ (ریلیز 19 مئی 1967ء) اُن کی بطور اداکار پہلی فلم تھی جس میں اداکارہ شبانہ اُن کی ہیروئن تھیں۔ فلم کے ڈائریکٹر احتشام تھے اور ان کی صاحبزادی فرزانہ سے ندیم کی ڈھاکہ ہی میں شادی ہوئی تھی۔ ماضی کے خوبرو ہیرو سنتوش کمار کی پہلی رنگین فلم میرا سلام (1966) ہے، جس میں ادکارہ صابرہ سلطانہ اُن کی بیگم بنیں۔ نذرالاسلام کی فلم دیوانے دو (1985) سنتوش کمار کی ریلیز آخری فلم ہے۔ ’’سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد، قدم قدم آباد تجھے‘‘ اور ’’اپنی جان نذر کروں اپنی وفا پیش کروں، قوم کے مردِ مجاہد تجھے کیا پیش کروں‘‘ کے خالق نامور شاعر مسرور انور نے بطور ڈائریکٹر دو فلمیں ایسا بھی ہوتا ہے (1984) اور شادی میرے شوہر کی (1986) ڈائریکٹ کی تھیں۔  ماضی کی اداکارہ کلاوتی کے صاحبزادے سید عزیزالحسن نے ادچاکار درپن کو اُن کی فلم عظمت (1973) میں  Assist کیا تھا اور اس فلم درپن نے اُن سے بطور مہمان اداکر ایک کردار بطور وکیل استغاثہ کا بھی کروایا تھا۔ عزیز الحسن کے کریڈٹ پر بطور ڈائریکٹر تین فلمیں ’’دل کا شہر، پرستش اور محبت مر نہیں سکتی‘‘ ہیں۔ جبکہ اُن کی دو فلمیں خون کی بارش اور مہنگی لڑکی نامکمل رہیں۔ ماضی کے نامور موسیقار ایم اشرف نے فلمی کیریئر کا آغاز فلم سپیرن (1961) سے کیا۔ جس میں منظور نامی موسیقار کے ہمراہ مل کر انہوں نے بطور موسیقار جوڑی بنام منظور اشرف خوبصورت دُھیں مرتب کیں۔ شباب کیرانوی کے لکھے اس گیت ’’چاند سا مکھڑا گورا بدن، جل میں لگائے کیسی اگن‘‘ کو اس جوڑی نے نامور گلوکار احمد رشی سے گوایا جو اپنے وقت کا سپر ہٹ گیت تھا اور اب بھی ہے۔ سابقہ مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والی ممتاز فلمی شخصیت بشیر احمد اہم حوالہ تو اُن کی فلمی گائیکی رہی ہے۔ انہوں نے بشیر احمد کے نام سے گلوکاری بھی کی اور بعض فلموں میں موسیقی بھی دی اور جے اے دیپ کے نام سے فلمی گیت نگاری بھی۔ ان تینوں حوالوں سے اُن کی سب سے زیادہ قابل ذکر قابل تحسین اور کامیاب ترین فلم درشن (1967) ہے۔ جسے ڈھاکہ ہی کے معروف اداکار رحمان نے ڈائریکٹ کیا تھا اور اس فلم میں وہ اداکارہ شبنم کے مقابل ہیرو بھی تھے۔ ماضی کے کامیاب ترین فلمساز و ہدایت کار پرویز ملک نے بطور ڈائریکٹر پہلی فلم ہیرا اور پتھر (1964) ڈائریکٹ کی تھی جو چاکلیٹی ہیرو وحید مراد کی بھی بطور ہیرو پہلی فلم تھی اور یہ کراچی میں بننے والی پہلی گولڈن جوبلی فلم کا اعزاز بھی رکھتی ہے۔ پرویز ملک کی فلم  جہاں تم وہاں ہم (1968) کے کہانی نویس دانش دیردی تھے۔ معروف موسیقار روبن گھوش کی یہ فلم پرویز ملک کے ہمراہ واحد فلم ہے جس میں وحید مراد اور شبنم ہیرو ہیروئین تھے۔ ان دونوں پر اس فلم میں یہ دلکش ڈوئٹ فلمایا گیا۔مجھے تلاش تھی جس کی وہ ہم سفر تم ہومیرے حسین خیالوں کی رہ گزر تم ہو مسرور انور کے لکھے اس ڈوئٹ کو احمد رشدی اور مالا بیگم نے گایا تھا۔ سال 1962ء کی فلم ’’سکھ کا سپنا‘‘ کے موسیقار منظور اصغر تھے۔ اپنی اس فلم کے بعد انہوں نے دیگر فلموں میں ایم جاوید کے نام سے موسیقی مرتب کی تھی۔ فلم انوکھی (1956) سفیر اللہ صدیقی المعروف لہری کی پہلی فلم تھی جس میں اُن کے کردار کا نام بھی لہری ہوتا ہے۔ اس فلم میں کریکٹر ایکٹر آزاد نے لہری کے والد کا کردار کیا تھا۔ فلم باغی سپاہی (1964) میں بھی لہری کے کردار کا نام لہری ہی ہوتا ہے۔ منور رشید کی فلم ہنستے آنسو (1980) میں اداکارہ نازنین لہری کی ہیروئین ہوتی ہیں۔ ماضی کے معروف موسیقار نذیر علی کی پہلی اُردو فلم ’’آنسو‘‘ (1971) ہے جو فلم کے ڈائریکٹر ایس اے بخاری کی پہلی رنگین فلم بھی ہے۔ اس فلم کے نغمہ نگار خواجہ پرویز تھے جبکہ ایک نغمہ ’’جان جاں تو جو کہے گاؤں میں گیت لئے‘‘ تنویر نقوی نے لکھا تھا۔ مسعود رانا نے اس فلم کے لئے خواجہ پرویز کا یہ نغمہ تیرے بنا یوں صدیاں بیتیں جیسے صدیاں بیت گئیںعمدگی سے گا کے نگار ایوارڈ لیا۔ لاہور کے سابق فلم اسٹوڈیو اے ایم اسٹوڈیو کے مالک اشفاق ملک کی بطور ڈائریکٹر پہلی فلم پرواز (1954) ہے جس سے معروف اداکار یوسف خان متعارف ہوئے۔ پرواز کے علاوہ اشفاق ملک نے فلم باغی، آخری نشان، اجنبی، گہرا داغ، لائی لگ، اعلان، دھوپ اور سائے، پڑوسی اور بھولا سجن بھی ڈائریکٹ کیں۔ انور کمال پاشا کی پہلی فلم دو آنسو (1950) اور آخری فلم بارڈر بلٹ (1983) کی کاسٹ میں علاؤ الدین، ایم اجمل اور صبیحہ خانم شامل ہیں۔ اسی طرح حسن طارق کی پہلی فلم نیند (1959) اور آخری فلم سنگدل (1982) میں اسلم پرویز شامل ہیں۔ ایس اے بخاری کی پہلی فلم سیما (1963) اور آخری فلم کائنات (1982) میں آغا طالش شامل ہیں۔
iعیدالفطر کی چھٹیوں میں پاکستانی فلموں کا ریکارڈ بزنس عید پر ریلیز ہونے والی دونوں پاکستانی فلمیں ’’مہرالنسا وی لب یو‘‘ اور ’’یلغار‘‘ عوام کی توجہ کا مرکز بنی رہیں، دونوں فلمیں باکس آفس پر شاندار بزنس کرنے میں کامیاب رہی ہیں۔ کراچی میں یاسر نواز کی فلم ’’مہرالنسا وی لب یو‘‘ کے چرچے رہے جبکہ لاہور سمیت پنجاب کے دیگر شہروں میں حسن وقاص رانا کی فلم ’’یلغار‘‘ چھائی رہی، اس کے علا وہ عید پر ہالی ووڈ فلموں کا بھی بزنس ہمیشہ کی طرح خوب چمکا۔ بلاک بسٹر فلم’’رانگ نمبر‘‘ کے خالق یاسر نواز نے ایک بار پھرڈرامہ، میوزک اور مزاح سے بھرپور انٹرٹینمنٹ فلم ’’مہرالنسا وی لب یو’’ شائقین کیلئے عید پر پیش کی ہے۔ فلم کے مرکزی کرداروں میں معروف اداکار دانش تیمور اور ثنا جاوید سمیت جاوید شیخ، قوی خان اور ثاقب سمیر نے اہم کردار ادا کیے۔ فلم نے عید کے پہلے روز  11 ملین یعنی ایک کروڑ دس لاکھ جبکہ دوسرے دن  17.5 ملین یعنی ایک کروڑ  75 لاکھ کا ریکارڈ بزنس کیا ہے۔ دوسری جانب فلم ’’یلغار‘‘ کی ہدایات حسن وقاص رانا نے دی ہیں، اس کے علاوہ وہ فلم کے مصنف بھی ہیں، حسن وقاص رانا اس سے قبل باکس آفس پر ریکارڈ بزنس کرنے والی فلم ’’وار‘‘ بھی پیش کرچکے ہیں۔ فلم کی کاسٹ میں اداکار شان، ہمایوں سعید، بلال اشرف، عدنان صدیقی، ایوب کھوسو، عائشہ عمر، ثنا بچہ، ارمینا رانا خان، گوہر رشید، عمیر جیسوال، عظمیٰ خان، علی رحمان وغیرہ شامل ہیں۔ فلم نے عید کے پہلے  ایک کروڑ  75 لاکھ اور دوسرے دن  24 ملین یعنی دو کروڑ چالیس لاکھ روپے کا شاندار بزنس کیا ہے۔ فلم کی کہانی سوات میں دہشتگردوں کیخلاف پاک فوج کے آپریشن کے گرد گھومتی ہے۔

مطلقہ خبریں

غزل

غزل

غزل