Sunday, July 20, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

قندوز کے معصوم فرشتے

عابد رحمت
سروں پر سفید عمامے، سفید لباس میں نکھرے نکھرے سے خوبصورتی کے شاہکار، مسکراتے کھلکھلاتے چہرے، لبوں پہ تبسم آمیز مسکراہٹ، آنکھوں میں مستقبل کے سہانے خواب سجائے، شکل و صورت سے جنت کے شہزادے معلوم ہوتے، گلے میں پھولوں سے سجے ہار ڈالے محبت و امن کا پیغام دیتے ہوئے، سینوں کے طاقوں میں قرآن کو محبت کے غلاف میں لپیٹ کر سرخرو ہوئے۔ سب ہی خوش تھے کہ آج معصوم فرشتے اپنی منزلِ مراد پانے کو ہیں، ماں باپ خوشی سے پھولے نہ سماتے تھے، چشم فلک نے ایسا نظارہ شاذ ہی دیکھا ہوگا کہ سینکڑوں کی تعداد میں حفاظ کرام یکبارگی دنیا کی تاریکیوں کو قرآن کے اجالوں سے منور کرنے والے ہیں۔ سب کچھ ہی تو ٹھیک ٹھاک تھا مگر پھر اچانک اک قیامت ٹوٹی، اس قیامت نے حشر بپا کر ڈالا، ان معصوموں کو مٹا دیا گیا، ان پر بم برسے، ان پر قہر نازل ہوا، ان کے چیتھڑے اور لاشے ہر سو بکھر گئے، خوبصورت جسم چھلنی ہوئے، چہروں نے اپنی شادابی کھو دی، سفید لباس رنگین ہوئے، عمامے کفن بنے، ان کی مسکراہٹ چھن گئی، جو سینے قرآن محفوظ کرچکے تھے وہ خود غیرمحفوظ ہوئے، جن ہاتھوں نے قرآن اٹھایا اسی قرآن پر ہاتھ کے پورپور بکھر گئے، فرعونوں نے فرعونیت کی انتہا کر ڈالی۔
ان کے سینوں میں نور اور چہرے پْرنور تھے، سفید لباس علامت نور اور محفل پر نوری فرشتے سایہ فگن تھے، الغرض وہ سر تا پا نور تھے، یہ سچ ہے کہ تاریکی کو کبھی نور اچھا نہیں لگتا، سو کافر بھی تاریک تھے، انہیں قرآن اچھا لگا نہ قرآن والے، اسی لئے وہ بوکھلائے اور پھر وہ کچھ ہوا جو ساری دنیا دیکھ کر بھی نہ دیکھ پائی۔ فرشتوں نے فرشتوں کا استقبال کیا، ماں باپ نے ان معصوموں کو جنت کے سفر پر روانہ کیا اور دنیا بس تماشا دیکھتی رہ گئی۔ یہ دلدوز سانحہ قیامت کبریٰ کی ایک جھلک تھی، روزِقیامت آسمان پھٹے گا یہاں سینے پھٹ گئے، علم اٹھ جائے گا یہاں علم والوں کے جنازے اٹھے، اس دن آسمان آگ برسائے گا یہاں بھی آگ برسی، کیا کیا نشانیاں بتاؤں ہر نشانی ہی علامات قیامت سے مماثل ہے۔ مسلمان کبھی بھی دنیا میں تاریکی برداشت نہیں کرسکتا، اسی لئے کفر نے اس نور کو پھونکوں سے بجھانا چاہا، لیکن وہ نہیں جانتے کہ ’’پھونکوں سے یہ چراغ بجھایانہ جائے گا‘‘۔
اے دُنیائے کفر! قندوز کے یہ معصوم فرشتے تمہیں پیغام دیتے ہیں، وہ تمہیں بتا رہے ہیں ، ہم پہلی بار نہیں کٹے، پہلی بار نہیں مٹے، ہم نے تو خون جگرسے تاریخ کے چراغ روشن کئے، ہماری تاریخ تابناک، ہماراحال روشن اور مستقبل روشن تر ہے۔ ہم پھر سے اکٹھے ہوں گے، پھر سے مسجد و مدرسہ کو آباد کریں گے، پھر سے فضاؤں میں قرآن کی آواز گونجے گی، اس صدا سے تمہارے ایوان لرز جائیں گے، جلی ہوئی چٹائیوں پر دو زانو ہو کر دنیائے کفر کے سینے میں سوزقرآن سے خنجر چبھوتے رہیں گے، تم ہمارے خوبصورت چہروں کو جتنا بگاڑو گے ہمارے منور چہروں کی کرنیں تمہیں اتنا ہی پاش پاش کر ڈالیں گی، تم ہمیں لاکھ مٹاؤ، مٹا نہ پاؤ گے، تم جتنا دباؤگے، ہم اتنا ہی ابھریں گے، ہمارا قتل عام تمہیں سکون سے جینے نہ دے گا، تم کبھی اضطراب سے نکل نہ پاؤ گے۔
تم روشنی کو روکنے چلے ہو، ہواؤں کو تھمانے چلے ہو، اجالوں کو تاریکی میں بدلنا چاہتے ہو، سمندر کو خشک کرنا چاہتے ہو۔ تم یہ کیوں بھول گئے اندھیرے روشنی کے سامنے اک پل بھی ٹکا نہیں کرتے، کمزور دیواریں کبھی بھی آندھیوں کو روک نہیں سکتیں، ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کے سامنے ریت کے گھروندے ڈھے جایا کرتے ہیں۔
قندوز کے یہ معصوم فرشتے مسلمان سے شکوہ کناں بھی ہیں، انہیں اپنوں سے گلہ بھی ہے، وہ پوچھتے ہیں کہ جسد واحد کو کاٹا گیا تو باقی جسم کیوں مفلوج ہوا؟ اس میں کیوں نہ حرکت پیدا ہوئی؟ ہم خون میں لت پت پڑے تھے، تم دیکھ رہے تھے پھر کیوں خاموش رہے؟ ہم سے محبت کے تمہارے کھوکھلے دعوے کسی کام کے نہیں، تم ہزار مذمتی بیان جاری کرو، جھاگ کی طرح بیٹھ جانے والا جوش و جذبہ دکھاؤ، تم احتجاج کرو لیکن یاد رکھنا تمہارے پاس اب ان چیزوں کے سوا کچھ ہے بھی نہیں۔ تم درندوں کے سامنے بین بجانے چلے ہو، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بھینس کے سامنے بین بجانے سے وہ سمجھے نہ سمجھے لیکن سر ضرور ہلائے گی، وہ تمہارے لئے بے ضرر ہوگی، تم اسے قابو کرسکتے ہو لیکن یہاں درندے تمہیں دیکھتے ہی چیر پھاڑ ڈالیں گے۔ تم نے یہ حقیقت کیوں بھلا دی کہ جب 70 حفاظ کرام کو کفار نے ظلم و بربریت کا نشانہ بنایا تو صاحب قرآن حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیسے ان کافروں کو کیفر کردار تک پہنچایا۔ تم نے یہ اصول کیوں نظرانداز کردیا کہ جان کے بدلے جان ہے نہ کہ جان کے بدلے بیان۔ ہاں یہ سچ ہے کہ قرآن کی حفاظت اللہ کے ذمہ ہے لیکن قرآن والوں کی حفاظت تو خلیفۃ اللہ کے ذمہ ہے۔ اگر تُو اللہ کا خلیفہ نہیں، اس کا نائب نہیں تو بتا پھر کون ہے جسے اللہ نے فرشتوں کے سامنے اپنا خلیفہ قرار دیا؟ اگر تُو کچھ نہیں کرسکتا تیرے لب تو ہل سکتے ہیں، دعا کے لئے تیرے ہاتھ تو اٹھ سکتے ہیں، اگر تُو اس قدر بے بس ہے تو پھر اللہ کے حضور سجدہ کرنے سے عاجز تو نہیں، ہمارے لئے دو بول دعا ہی کے بول دے، کم از کم ہماری لاشوں کے لئے ہی دعا کردے، ہمارے ماں باپ کے صبر کے لئے ہی کچھ کہہ دے، اپنے معصوم بچوں کی خیروعافیت ہی مانگ لے، اس لئے کہ یہ آگ صرف ہم پر نہیں برسی بلکہ پوری امت مسلمہ کی جانب بڑھ رہی ہے، اس آگ کی زد میں تم بھی ہو، یہ یاد رکھنا کبھی بھلا نہ دینا، کہیں ایسانہ ہو کہ غفلت میں تم بھی اپنے معصوموں کے ٹکڑے چنتے رہ جاؤ۔
یہ تو قندوز کے فرشتوں کی انتباہ تھی، شاید انہیں غلط فہمی ہوئی ہے، وہ نہیں جانتے کہ ہمارے لب بھی ہلتے ہیں اور ہاتھ بھی اٹھتے ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ لب ہلتے ہیں اور زبانیں بھی کھلتی ہیں مگر اپنے مسلمان بھائیوں کے خلاف زہر اگلنے کے لئے، ہاتھ بھی اٹھتے ہیں مگر اپنے ہی مسلمانوں کے گریبان چاک کرنے کے لئے، ان کے خون سے ہاتھ رنگنے کے لئے، اپنے بچوں کی بھی فکر ہے اسی لئے تو نہ حلال دیکھتے ہیں نہ حرام، انہیں سب کچھ کھلائے جارہے ہیں، ہمیں اپنے بچوں کی اس قدر پرواہ ہے کہ انہیں جدیدیت کے سانچے میں ڈھال رہے ہیں، انہیں اس قرآن سے دور کررہے ہیں جو قرآن تمہاری شہادت کا باعث بنا، ہم چاہتے ہیں کہ شیر کی ایک دن کی زندگی جینے کی بجائے دنیا کو پورا پورا ’’انجوائے‘‘ کرنے کے لئے گیدڑ کی سو سالہ زندگی جیئیں۔ مسلمانوں پر ہم بطور مسلمان حکمران ہوتے ہیں مگرہمیں سورۃ اخلاص تک نہیں آتی۔ اگر ہم نے قرآن پر عمل کیا تو ہم بھی مارے جائیں گے، امید ہے اب تو تم ہماری خاموشی کا سبب جان چکے ہو گے، مزید وضاحت کے لئے اللہ کی عدالت میں ہمارا گریبان حاضر ہے۔ اس وقت تک کے لئے خداحافظ۔

مطلقہ خبریں