پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
افسانہ
اْس کے منہ سے نکلا ہوا فقرہ آتش فشاں کی طرح پھٹا اور میرے اندر دھواں بھر گیا، مجھے لگا جیسے کسی نے میرے سانس کی نا لی پر ہا تھ رکھ دیا ہو، میرے دیدے حیرت سے پھیل گئے، میں نے بے یقینی کے عالم میں اْس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا اور پوچھا بی بی آپ کیا کہہ رہی ہو، مجھے اپنی سماعت پر بالکل بھی یقین نہیں آرہا تھا کہ ایک ماں اپنی جوان بیٹی کے ساتھ میرے پاس آکر یہ با ت کرے گی، وہ اپنی بیٹی کے لئے دُعا نہیں بددعا مانگنے آئی تھی، اْس کی بددعا سے اْس کی بیٹی کی جان بھی جا سکتی تھی لیکن اْس نے دوبارہ بھی وہی بات کی جسے سن کر میرے ہوش و حواس اْڑ گئے تھے، میں پچھلے دو عشروں سے ہزاروں لوگوں سے مل چکا ہوں ایسا کیس میرے پاس آج تک نہیں آیا تھا، پہلی بار کسی نے ایسا سوال کیا تھا، پہلی بار کسی نے کسی کی موت کی دعا کا کہا تھا، انسانی جان قدرت کا انمول تحفہ ہے جس کی بقا کے لئے انسان ہر حد سے گزر جاتا ہے لیکن یہاں تو معاملہ یکسر مختلف نظر آرہا تھا، یہاں کسی کے جینے کی بجائے موت کی خواہش کی جارہی تھی اور وہ عورت اپنی اس بات یا ضد پر چٹان کی طرح کھڑی تھی۔ میں اپنے گاؤں آیا ہوا تھا اور حسب معمول لوگوں سے مل رہا تھا کہ یہ ماں بیٹی ملاقاتیوں میں بیٹھی نظر آئیں جب یہ میرے پاس آئیں تو ماں نے کہا ہم علیحدگی میں بات کرنا چاہتی ہیں، میں نے کمرہ خالی کرایا تو ادھیڑ عمر عورت اِدھر اْدھر دیکھ کر اچھی طرح تسلی کر کے کہ کوئی اْس کی بات سن تو نہیں رہا میرے پاس آکر سرگوشی کے انداز میں بولی میری بیٹی حاملہ ہے، آپ دعا کریں اِس کا بچہ مر جائے یہ دنیا میں آنے سے پہلے ہی موت کا ذائقہ چکھ لے، مجھے کوئی ایسا تعویز یا ورد بتا دیں جس کے کرنے سے اِس کا بچہ پیٹ کے اندر ہی مر جائے، میں نے اْسے سمجھایا کہ اِس طرح تو تمہاری بیٹی کی جان بھی جا سکتی ہے تو وہ بولی کوئی بات نہیں اگر یہ بھی مرتی ہے تو خیر ہے اِس بچے کو مرنا چاہئے، میں نے اْس اللہ رسولؐ کے فرمان بتائے کہ یہ قتل ہے لیکن وہ بضد تھی کہ بچہ مرنا ہی چاہئے، میں جب خوب اْس کو مذہبی طور پر ڈرا اور سمجھا چکا تو وہ بولی یہ ناجائز بچہ ہے، یہ بن بیاہی ماں ہے، یہ حرام کا بچہ ہے کیونکہ میں کسی بھی طور پر اْس کی بات نہیں مان رہا تھا اِس لئے اْس نے مجھے قائل کرنے کے لئے اپنی داستانِ غم اس طرح سنائی کہ گاؤں کے قریب ہم ایک اینٹوں کے بھٹے پر کئی سالوں سے مزدوری کرتے ہیں، ہم صدیوں سے جانوروں کی طرح زندگی گزار رہے ہیں، بھٹہ مالکان ہمیں جانوروں کی طرح ہانک کر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتے رہتے ہیں، ہمارے مرد ان پڑھ جاہل ہیں جو ایڈوانس قرضہ لے کر خود کو اِن کے غلام بنا لیتے ہیں، علم تہذیب پڑھائی لکھائی ہم سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہیں، مذہب اللہ رسولؐ کا بھی ہم نے صرف نام ہی سن رکھا ہے، ہم بھٹہ مالکان کے زرخرید غلام ہیں اِن کو ہما ری زندگیوں اور جسموں پر مکمل اختیار حاصل ہے ہم جس بھٹے پر کا م کر تے ہیں اْس کا مالک شروع سے شرابی زانی ہے، اِس کی نظر جس پر پڑ جائے وہ اِس کا غلام، جس عورت کی شکل و صورت اچھی ہوتی ہے اس کے بھاگ جاگ جاتے ہیں، اْس کو مزدوری کے بغیر اچھے پیسے دے دیئے جاتے ہیں، پہلے تو یہ میرا عاشق تھا میرے جسم سے کھیلتا رہا پھر جب میری بیٹی جوان ہوئی تو اِس کی نظر اِس معصوم پر پڑ گئی، میں نے کئی بار سمجھایا کہ یہ تو تمہاری بیٹیوں جیسی ہے اور کیا پتہ یہ تمہاری ہی بیٹی ہو لیکن یہ شراب کے نشے میں دھت مذہب اخلاقیات کی دھجیاں اڑاتا میری بیٹی کی عزت سے کھیلتا رہا، اِس کا طریقہ واردات یہ ہے کہ جو اِس کو پسند ہو اْس کے مرد کو کام کے لئے باہر بھیج دیتا ہے اور یہ خود اْس گھر کا مالک بن کر عزت و آبرو سے سرِعام کھیلتا ہے، ہما رے مردوں کو بھی اِس کا پتہ ہوتا ہے لیکن اْن میں بھی غیرت نام کی نہیں ہے، اسے بھٹہ مالکان نے اپنی سلطنت بنا رکھی ہوتی ہے، سینکڑوں عورتیں مرد اِن کے غلاموں میں شامل ہوتے ہیں، اگر کبھی ہم بھاگنے کی کوشش کریں تو ہمیں بھٹوں کی چمنیوں میں زندہ جلا دیا جاتا ہے یا جانوروں کی طرح باندھ کو جوتوں سے مارا جاتا ہے تاکہ دوسروں کو عبرت حاصل ہو، اگر کبھی ہم بھاگ جانے میں کامیاب ہو بھی جائیں تو یہ اپنے اثرورسوخ کے بل بوتے پر ہمیں پکڑوا دیتے ہیں اور پھر ہمیں زنجیروں سے باندھ دیا جاتا ہے، ہمیں ایسی دردناک سزائیں دی جاتی ہیں کہ دوبارہ کسی کو بھاگنے کی جرأت نہ ہو۔ اْس عورت کی داستان میری سماعتوں میں شگاف ڈال رہی تھی، میرے جسم کا انگ انگ آنکھ بن کر اشکبار ہو رہا تھا، طا قتور ظالم اور کمزور اِس فرق کی ہولناکی میرے جسم کو ادھیڑ رہی تھی، میرے جسم پر انگارے چل رہے تھے، میں نے اْس عورت کو حوصلہ دلاسا دے کر بھیج دیا، بعد میں مجھے پتہ چلا کہ وہ ادھر ادھر دھکے کھاتی رہی، پھر آخر وہ بچہ دنیا میں آکر بھٹہ مالک کے غلاموں میں اضافہ کر گیا، اس عورت کی داستانِ غم خنجر بن کر میرے دل میں پیوست ہوچکی تھی، اگلے دن میں نے اپنے ایک دوست کو پکڑا اور اْس بھٹہ مالک کے پا س ہم چلے گئے وہی بوسکی کا سوٹ، راڈو گھڑی اور پیجارو، وہ اپنی مسند شاہی پر فرعون بنا بیٹھا تھا، ہمارے جانے پر بھی وہ کسی گھر سے ہی برآمد ہوا، اْس کے چہرے کے تاثرات بتا رہے تھے کہ وہ رنگ رلیاں منا رہا تھا، وہ مجھے تھوڑا بہت جانتا بھی تھا بہت خوش ہوا اور آنے کی وجہ پوچھی تو میں نے زنا اور ظلم پر لمبا چوڑا لیکچر دے ڈالا۔ میری لمبی چوڑی تقریر کے بعد وہ بولا بھٹی صاحب آپ کب سے مولوی بن گئے ہیں، تو میں نے آخری تیر چلایا اور یہ کہہ کر واپس آگیا کہ قدرت کا اصول ہے جیسا کرو گے ویسا بھرو گے، اِس لئے اْس دن سے ڈرو جب تمہار ی باری آئے گی، تو وہ ناگوار لہجے میں بولا ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ میں واپس تو آگیا لیکن وہ بن بیاہی بیٹی پھانس بن کر میرے دل میں اْتر چکی تھی میں جب بھی کسی بھٹے کے پاس سے گزرتا مجھے کئی مائیں بیٹیاں بے یارومددگار مدد مدد پکارتی نظر آتیں، قافلہ شب و روز چلتا رہا اور کئی سال بیت گئے اور پھر خدائے بزرگ و برتر کو ہمیشہ کی طرح مجھ پر رحم آیا اور بھٹہ مالک کا انجام میری زندگی میں لایا۔ ایک رات میں سو رہا تھا تقریباً رات ایک بجے زور سے دروازے پر دستک ہوئی میں نے دروازہ کھولا تو میرے سامنے میرا وہی دوست اسی بھٹہ مالک کے ساتھ کھڑا تھا میں دونوں کو اندر لایا تو حیران رہ گیا بھٹہ مالک برسوں کا بیمار اور بوڑھا لگ رہا تھا، بالوں میں کلر نہ لگانے سے بڑھاپا جگہ جگہ سے چھلک رہا تھا، بوسکی کا چمکیلا سوٹ میلا اور سلوٹوں سے بھرا ہوا تھا، چہرے پر زندگی کی بجا ئے قبرستان کی ویرانی نظر آرہی تھی، ایک ایسا شخص جو سینکڑوں میل سلگتے صحرا پر چل کر آیا ہو، بھٹہ مالک نے میرے سامنے ہاتھ جوڑ دیئے پروفیسر صاحب مجھے اللہ سے معافی لے دیں، میرے پوچھنے پر دوست نے بتایا کہ ایک مہینہ پہلے اس کی جوان بیٹی کسی کے ساتھ بھاگ گئی ہے، اْس کمی نے اِس کی بیٹی اور اپنی قابل اعتراض سینکڑوں تصویریں بنا کر گاؤں کی گلیوں میں پھینک دی ہیں، یہ منہ چھپاتا پھر رہا ہے، توبہ کے طور پر بھٹہ بیچ دیا، گاؤں چھوڑ کر کسی دوست کے ڈیرے پر رہتا ہے، بھٹہ مالک زارو و قطار رو رہا تھا کہ کسی طرح میری بیٹی مجھے واپس مل جائے، کمرہ اْس کی آہوں سسکیوں چیخوں سے گونج رہا تھا اور میں سوچ رہا تھا کہ خدا کائنات بنا کر بیٹھ نہیں گیا، اْس کی لاٹھی حرکت میں آتی ہے اور پھر بھٹہ مالک روتا چلاتا چلا گیا، چند دن بعد ہی اْس نے ذلت اور شرم کی زندگی سے تنگ آکر خودکشی کرلی اور ہمیشہ کے لئے زانیوں کے لئے نشانِ عبرت بن گیا۔ تو مجھے وہ واقعہ یاد آگیا حسین بن قاسم خلیفہ وقت عباسی کا وزیر تھا خلیفہ نے ناراض ہو کر اْس کو معزول کردیا اور ابن مقلہ کو اْس کی جگہ لگا دیا، ابن مقلہ نے حسین بن قاسم کو قتل کرا دیا اور اْس کا سر عجائب گھر میں رکھوا دیا، بعد میں جب راضی خلیفہ بنا تو اْس نے کسی وجہ سے ناراض ہو کر پہلے ابن مقلہ کو قیدی بنایا پھر اْس کا ہا تھ کاٹ دیا، جب متقی کا زمانہ آیا تو وہ ایک دن عجائب گھر میں گیا تو وہاں ایک طبق دیکھا جس میں ایک سر اور ایک ہاتھ رکھا ہوا تھا اور پاس کے ایک کاغذ پر لکھا تھا یہ حسین بن قاسم کا سر ہے، دوسرے کاغذ پر لکھا تھا یہ وہ ہاتھ ہے جس نے یہ سر کاٹا تھا۔
#عمر چھپانے کا راز
عورت کی عمر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ عمر وہ جو نظر آئے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر عورت کا یہی خواب ہوتا ہے کہ وہ خوبرو پْرکشش، جاذب نظر اور کم عمر نظر آئے۔ اس مقصد کو پانے کیلئے وہ ہر طرح کوششوں میں مصروف رہتی ہیں، کئی کریمیں، لوشن، ماسک، فیشل غرض ہر طرح کے جتن کئے جاتے ہیں مگر پھر بھی رزلٹ حسب خواہش نہیں ملتا جس کی تمنا کی جاتی ہے۔ دراصل عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ جلد کی لچک ختم ہونے لگتی ہے اور اگر مناسب نگہداشت نہ کی جائے تو چہرہ خشک ہوجاتا ہے اور عمر زیادہ نظر آنے لگتی ہے۔ اس لئے خواتین کو چاہئے بیوٹی ٹپس سے ہٹ کر ایسا طرز زندگی اپنائیں جو انہیں سدا بہار جوان بنا دے۔ اپنی زندگی میں سب سے پہلی یہ تبدیلی لے کر آئیں کہ خوش رہیں اور مثبت سوچ اپنائیں کیونکہ مسکراہٹ اور مثبت سوچ نہ صرف آپ کو خوبصورت بناتی ہے بلکہ آپ کے چہرے سے مشورے پر عمل کرکے آپ لمبے عرصے تک اپنی عمر چھپا سکتی ہیں۔ ہمیشہ کھلے کھلے اور شوخ رنگ پہنیں کیونکہ رنگ ہمارے مزاج پر گہرا اثر ڈالتے ہیں۔ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ شوخ رنگوں میں ملبوس خواتین خوش وخرم جبکہ ہلکے رنگ پہننے والی خواتین پریشان حال اور اپنی سوچوں میں گم نظر آتی ہیں۔ خواتین کیلئے ضروری ہے کہ رنگوں کا انتخاب سوچ سمجھ کر کریں تاکہ اْن کی شخصیت میں نکھار آجائے۔ اپنے چہرے پر کریمیں اور لوشن لگانے کی بجائے رات کوسونے سے قبل اور میک اتارنے کیلئے زیتون کا تیل استعمال کریں۔ زیتون میں اللہ تعالیٰ نے یہ خاصیت رکھی ہے کہ جلد پر جھریوں کی رفتار کا عمل سست ہوجاتا ہے اور انسان لمبے عرصے تک جوان نظرآتا ہے۔ اس کے علاوہ اپنے بالوں پر بھی خاص توجہ دیں کیونکہ بڑھتی عمر کے اثرات چہرے کے علاوہ بالوں پر بھی پڑتے ہیں۔ بالوں کی خوبصورتی کیلئے ضروری ہے کہ ہفتے میں ایک بار بالوں میں آئلنگ ضرور کریں۔ سر کا مساج آپ کے دماغ کو بھی سکون دے گا۔ پانی کا استعمال زیادہ سے زیادہ کریں۔ جتنا زیادہ پانی پئیں گی اتنا ہی فریش نظر آئیں گی کیونکہ پانی آپ کی جلد کو نرم رکھتا اور خشکی سے بچاتا ہے۔