حنیف باوا
فیقا کوچوان ہمارے گاؤں فیض پور کا رہائشی تھا۔ وہ تانگے میں اپنے پیارے گھوڑے کو جوت کر گاؤں کے بالکل قریب کے شہر رسول نگر جایا کرتا تھا۔ گاؤں سے چل کر سب سے پہلے وہ رسول نگر کے ٹانگوں کے اڈے پہنچتا تھا جو شہر کے لاری اڈے جوکہ شہر سے مشرق کی جانب واقع تھا، جاتا۔ پہلے باری کی لسٹ میں اپنا نام لکھواتا اور پھر وہ سواریوں کو لے کر جہاں جانا ہوتا جاتا۔ فیقا خوبصورت اور وجیہہ نوجوان تھا، جس طرح وہ خود کو سوہنا بنا کر رکھتا تھا اِسی طرح وہ اپنے کڑیل جوان گھوڑے کو صاف ستھرا رکھتا تھا۔ شام کو جب وہ اپنے مشکی کو تانگے سے آزاد کرتا تو پہلے اس کی پیٹھ پر پیار سے ہاتھ پھیرتا۔ پھر جب اس کا مشکی اس کی جانب محبت بھری نظروں سے دیکھتا تو وہ بڑے نرم لہجے سے کہتا ”کیا بات ہے بیٹے! بھوک لگی ہے کیا؟ کھانے کو چاہئے کچھ؟ میں ابھی لا کر دیتا ہوں۔“ اس کے بعد وہ اندر سے صاف ستھری گھاس اٹھا کر لاتا اور اسے اس کی کھرلی میں ڈال دیتا جہاں وہ بندھا ہوتا۔ فیقا اس کی کھاد خوراک کا بہت خیال رکھتا۔ جو گھاس وہ گھسیاروں سے لاتا وہ تازہ ہوتی اور اس میں دھول اور مٹی نام کو نہ ہوتی۔ دانا بھی وہ وافر مقدار میں اسے کھانے کو دیتا۔ وہ اسے گندے پانی کے قریب تک نہ پھٹکنے دیتا۔ وہ سدا اس کے سامنے صاف شفاف پانی رکھتا جسے وہ بغیر ہچکچاہٹ کے غٹا غٹ پی جاتا۔ فیقے کے گھر کے پانچ افراد تھے، ایک وہ خود، دوسری بیوی ہاجرہ اور تین بچے۔ دو بیٹے اور ایک بیٹی۔ فیقے کے بچے بھی مشکی گھوڑے سے بہت مانوس تھے۔ جب وہ اس کے بدن پر ہاتھ پھیرتے تو وہ بھی ان کی طرف اپنائیت سے دیکھتا۔ بچے چونکہ ابھی بچپنے کی حدود میں تھے وہ نہیں چاہتے تھے کہ پیار کسے کہتے ہیں لیکن پھر بھی مشکی ناند پر بندھا ہوتا تو وہ اس کی طرف کھینچے چلے جاتے، اس کے ساتھ اٹھکیلیاں کرتے، فیقا بھی اس کا بہت گرویدہ تھا۔ گرویدہ کیوں نہ ہوتا وہ پچھلے سات آٹھ برسوں سے اس کے پاس تھا۔ مشکی نے بھی ان برسوں میں فیقے کی بہت خدمت کی۔ فیقے کو جب بھی اسے تانگے میں جوتنا ہوتا تو اس نے کبھی اڑی نہ کی تھی۔ کسی لمحے بھی اس نے نہ جانے کی ضد نہ کی تھی۔ جب فیقا اسے تانگے کے بمبوں کے درمیان لے جاتا تو مشکی ان کے درمیان بڑے آرام سے آکر کھڑا ہوجاتا۔ اگر کسی وجہ سے ساز لگانے میں قدرے دیر ہوجاتی تو گھوڑا فراٹے مارتا جیسے کہہ رہا ہو۔ ”فیقے بھائی! جلدی کریں کام پر جانے میں دیر ہورہی ہے۔ اگر جلدی نہ جائیں گے تو آمدنی میں کمی واقع ہوجائے گی“۔ جب فیقا اسے جوتنے لگتا تو وہ چمکتے اور کالے سیاہ بالوں سے بھری دُم کو ایسے ہلانے لگتا جیسے اسے تانگے میں بندھے جانے میں سکون مل رہا ہو۔ ٹانگہ جب ہر طرف سے تیار ہوجاتا تو فیقا اپنے مشکی کی پیٹھ پر ہاتھ پھیر کر کہتا ”چل میرے یار! اللہ بھلی کرے گا“۔ فیقے کا اتنا ہی کہنا ہوتا تو مشکی فوراً چل پڑتا۔ اڈے پر پہنچ کر اپنی باری کا انتظار کرتا۔ اس کا ایک ہی روٹ تھا محلہ اسلام آباد سے بستی نور پور تک کا۔ بستی نور پور، رسول نگر شہر سے ڈیڑھ دو کوس کے فاصلے پر تھی۔ یہ نئی بستی تھی، یہاں کی گلیاں اور سڑکیں کھلی تھیں۔ یہ بستی کسی نقشے یا کسی اصول کے تحت آباد ہوئی تھی۔ پہلے پہل تو یہاں کی آبادی اتنی زیادہ نہیں تھی لیکن اب بتدریج اس میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ جو بھی شہر کی تنگ فضا سے گھبرا کر کھلی فضا میں سانس لینا چاہ رہا ہوتا تو وہ اسی آبادی کی طرف رخ کرتا۔ چونکہ یہ آبادی اب کافی وسعت اختیار کر گئی تھی اس لئے یہاں کے لوگوں کا شہر میں آنا جانا لگا ہی رہتا تھا۔ اپنی باری پر جب ٹانگہ سواریوں سے بھر جاتا تو فیقا باگ کو کھینچ کر دو بار ٹچ ٹچ کرتا تو مشکی اپنے کان کھڑے کرکے چلنے کو تیار ہو جاتا۔ اڈے سے نکلنے کی دیر ہوتی تو وہ دلکی چال سے چلنے لگتا۔ اڈے سے لے کر بستی نور پور تک کی تمام سڑک پکی تھی، اس لئے جب مشکی کے پاؤں ایک خاص قسم کے ردھم کے ساتھ سڑک پر پڑتے تو اُن سے جو آواز نکلتی وہ ایک خاص دل آویز موسیقی پیدا کرتی جسے سن کر تانگے کی تمام سواریاں سحر زدہ سی ہوجاتیں۔ جب وہ دلکی چال چلتے ہوئے اپنی گردن کو دائیں بائیں گھماتا تو گردن کے بال خوبصورت پھندنوں کی طرح ایک خاص ادا سے لہراتے تو دیکھنے والوں کو ایسے معلوم ہوتا جیسے کوئی رقاصہ ناچ میں محو ہو۔ اس سب کچھ کو دیکھ کر کوئی نا کوئی سواری فیقے سے بات کئے بغیر نہ رہ سکتی۔ ”یہ جو تیرا گھوڑا ہے، اس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ کیا خوب چال ہے اس کی“۔ ”کتنا گٹھا ہوا جسم ہے اس کا، کتنا مست ہو کر چلتا ہے“۔ اپنے مشکی کی تعریف سن کر فیقے کی گردن جیسے فخر سے تن جاتی اور وہ اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہتا: ”یہ سب اللہ کی دین ہے بھاجی۔ بندہ تو ویسے ہی میری میری کرتا رہتا ہے“۔ ”لگتا ہے آپ نے اسے بڑے پیار سے رکھا ہوا ہے“۔ ”ہاں جی…..“ اس کے چہرے پر ایک عجیب قسم کی خوشی پھیل جاتی۔ اس طرح کی گفتگو فیقے کوچوان کا حوصلہ بڑھائے رکھتی اور وہ اپنے مشکی کو تھپکی دیتے اور اس کی پیٹ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے گاؤں پہنچ کر سواریوں سے کرایہ وصول کرتا اور دوسرے چکر کے لئے تیار ہوجاتا۔ اس طرح وہ اتنا کما لیتا جس سے اس کے گھر کے تمام اخراجات پورے ہوجاتے، اپنے گھوڑے کی پرورش بھی وہ اچھے طریقے سے کرتا۔ اس کے تینوں بچے ابھی چھوٹے تھے۔ اسکول میں داخلے کی عمر کو ابھی نہیں پہنچے تھے۔ ان کی فیس کی ادائیگی کا مرحلہ ابھی باقی تھا۔ آخر وہ وقت بھی آ ہی گیا جب اس کے تینوں بچے اسکول جانے کی عمر کو پہنچ گئے۔ ایک روز انہیں پرائیویٹ اسکول میں داخل کروا دیا گیا۔ حالانکہ وہ انہیں کسی گورنمنٹ اسکول میں بھی داخل کرا سکتا تھا لیکن اس نے سوچا اگر شرفو کمہار اور شیدے پارچہ باف کے بچے پرائیویٹ اسکول میں داخل ہوسکتے ہیں تو اس کے کیوں نہیں؟ اس کی آمدنی شرفو کمہار اور شیدے پارچہ باف سے کسی طور بھی کم نہیں ہوگی۔ اب اس کی آمدنی پر بچوں کی ماہانہ فیس، یونیفارمز، کتابوں اور کاپیوں کا اضافی بوجھ پڑنے لگا۔ ان کی بہتر خوراک اور بہتر لباس پر جو کچھ خرچ ہوتا وہ اس کے علاوہ تھا۔ وہ ان پر اتنا کیوں خرچ نہ کرتا آخر وہ اچھے اسکول میں تعلیم حاصل کررہے تھے۔ یہ کوئی مذاق نہیں۔ گزشتہ کچھ عرصے سے سواریوں کے کرائے میں قدرے اضافہ بھی ہوا لیکن وہ اتنا نہیں تھا کہ بچوں کی بڑھتی ہوئی عمروں کا ساتھ دے سکتا۔ اب جیسے جیسے وقت گزر رہا تھا۔ بچے بڑی جماعتوں میں آ رہے تھے۔ آج سب سے چھوٹی بچی آٹھویں جماعت میں تھی اور دونوں بڑے بیٹے نویں کے طالب علم تھے۔ ظاہر ہے کہ اب ان کے تعلیمی اخراجات میں اسی تناسب سے اضافہ ہونا تھا جس تناسب سے ان کی جماعتیں تقاضا کررہی تھیں۔ اب اس کی جیب پر مزید بوجھ پڑنے لگا لیکن اس کے ذہن میں کبھی یہ سوچ نہ ابھر سکی کہ اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسکول سے اٹھا کر کسی گورنمنٹ اسکول میں لے جائے لیکن وہ کیوں لے کر جاتا۔ شرفو اور شیدے کے بچوں کے کون سے سرخاب کے پر لگے ہوئے تھے کہ وہ پرائیویٹ اسکولوں میں ٹکے رہیں۔ لیکن اگر کبھی بھولے سے بچوں کو گورنمنٹ اسکول میں داخل کرانے کا فیقا سوچتا بھی تو اس کے ذہن میں شرفو اور رشیدے پارچہ باف کے بچے آ جاتے۔ اخراجات جائیں بھاڑ میں بچے تو اچھے تعلیمی ادارے میں پڑھ رہے ہیں نا۔ فیقا قدرے مطمئن ہو کر کہتا۔ آخر اتنی کم آمدنی میں کیسے اضافہ کیا جائے۔ فیقا بعض اوقات سوچتا۔ آخر اس کی اس سوچ نے اردگرد کی چھوٹی چھوٹی سوچوں سے الجھے ہوئے اپنا ایک راستہ بنا ہی لیا۔ ”کیوں نا شہر اور گاؤں کے درمیان کے روٹ میں دو چکروں کا اضافہ کردیا جائے“۔ فیقے نے ایسا ہی کیا۔ اگر وہ پہلے دس چکر لگاتا تھا تو اب دوبار لگانے لگا۔ لیکن اس نے یہ اضافہ کرتے وقت یہ نہ سوچا کہ اس کا مشکی پیارا مشکی اب آہستہ آہستہ بڑھاپے کی عمر کو پہنچ رہا تھا۔ اب اس کی پہلے والی پھرتی، پہلے والی نہیں رہی تھی۔ اس کی طاقت میں بھی کمی آ رہی تھی۔ جب ایسی صورتِ حال ہو تو سواریاں بھی ایسے گھوڑے والے تانگے میں بیٹھنے سے پہلے سوچتی ہیں۔ فیقے کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہونے لگا۔ اب اکثر اوقات اسے کم سواریوں کے ساتھ چلنا پڑتا تھا۔ اس طرح اسے دو پھیروں کے اضافے سے بھی کوئی خاطرخواہ فائدہ نہ ہوا اور گھر کی دشواریاں تو جوں کی توں تھیں۔ مرتا کیا نہ کرتا فیقے نے اب اپنے پیارے مشکی کے راتب میں کمی کردی جس سے وہ مزید کمزور ہوگیا۔ بچے جو بچپن سے اس سے بہت مانوس تھے اس سے کھیلتے تھے اٹھکیلیاں کرتے، اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرتے لیکن اب شاید ان کی ترجیحات بدل گئی تھیں یا اس کے جسم میں کمزوری آ جانے سے وہ بے ڈھنگا سا ہوگیا تھا۔ جس سے اس کے اندر کی کشش جاتی رہی تھی۔ کچھ بھی تھا اب انہیں اس کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنا بھی گوارا نہ تھا لیکن مشکی تو اب بھی ان کی طرف محبت بھری نظروں سے دیکھتا۔ اب بھی وہ چاہتا تھا کہ وہ پہلے کی طرح اس کے قریب آئیں۔ اس کی گردن کے بالوں کو سہلائیں۔ فیقے کا پیارا مشکی آج اس کی محبت کے دائرے سے نکل رہا تھا۔ اب اس کے لئے وہ ایک پیسے کمانے کی مشین کی حیثیت رکھتا جا رہا تھا۔ اسی لئے وہ آج بھی اس سے اتنی ہی کمائی کی توقع رکھتا جتنی کہ وہ جوانی کے دنوں میں دیا کرتا تھا۔ جوانی کے دنوں میں چونکہ وہ فیقے کو زیادہ سے زیادہ کما کر دیتا تھا اس لئے فیقے کا چابک مارنا تو درکنار اسے دکھانا بھی گوارہ نہیں تھا لیکن آج وہ اس لاغر جسم پر چھانٹا مارنا ضروری سمجھنے لگا تھا، تاکہ وہ تیز تیز چلے اور سواریاں وقت پر اپنی منزلِ مقصود پر پہنچ سکیں۔ لیکن تیز چلنا اب اس کے بس میں نہیں رہا تھا۔ اس روز ہاں اسی روز کچھ ایسا ہوا تھا۔ اس روز فیقا صبح سویرے ٹانگہ جوتنے کے بجائے چارپائی پر سرنیہواڑے کسی گہری سوچ میں مستغرق تھا جب اس کی بیوی ہاجرہ نے اسے اس حال میں دیکھا تو وہ اس کے پاس پہنچی اور حیران ہو کر کہنے لگی۔ ”آج آپ کام پر نہیں گئے۔ خیر تو ہے“؟۔ ”خیر ہی ہے“۔ فیقے نے بڑی افسردگی سے جواب دیا۔ ”کچھ تو ہے جسے آپ لے کر بیٹھے ہوئے ہیں“۔ ”کیا بتاؤں ہاجرہ کل جب ہمارا مشکی ٹانگے میں جتا ہوا شہر سے گاؤں نور پور کی طرف جا رہا تھا تو اس کی چال معمول سے بھی زیادہ سست تھی۔ میں نے بہتیری باگیں کھینچیں، اسے بڑا پچکارا، پیار کیا اور متعدد بار ٹچ ٹچ کیا، اس کی چال میں کوئی فرق نہیں آیا۔ اسی طرح ڈھیچوں ڈھیچوں کرتے ہوئے ابھی بمشکل شہر کے ٹانگوں والے اڈے سے نور پور تک کا آدھا سفر ہی طے کیا تھا کہ نہ جانے مجھ میں اتنا غصہ کہاں سے آ گیا تھا۔ میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اس پر تابڑ توڑ چابک برسانے لگا لیکن اس سے بھی جب اس کی چال میں بہتری نہ آئی تو سواریوں میں سے ایک نے میرا ہاتھ غصے سے پکڑا کر کہا۔ ”کیوں مارے جا رہے ہو اس بیچارے بے زبان کو۔ جتنی اس میں طاقت ہے اس کے مطابق ٹھیک جا رہا ہے۔ اس سے زیادہ وہ بھلا کیا کرے“؟۔ سواری کی یہ بات مجھ پر کوڑے کی طرح برسی اور میرا غصہ نہ جانے کہاں چلا گیا۔ قدرے توقف کے بعد میں نے سوچا۔ سواری ٹھیک ہی تو کہہ رہی ہے۔ جتنی اس میں طاقت ہے اس سے بڑھ کر بھلا اور کیا کرے اور پھر اسے کمزور کرنے والا کون ہے؟ وہ میں ہی تو ہوں جس نے اسے اپنے بچوں کی ضروریات کی بھینٹ چڑھا دیا۔ ایسا کرتے ہوئے میں نے ذرا نہ سوچا کہ یہ بھی تو میرا ہی بیٹا ہے۔ جسے میں نے بڑے ناز و نعم سے پال پوس کر جوان کیا تھا، جس کے عوض میں اس سے حد سے زیادہ کام لیتا رہا اور یہ خوش دلی سے کام دیتا رہا تھا۔ جب مہنگائی پر قابو نہ پا سکا تو اس بیچارے کے چارے کو چھین کر اپنے گھر کی تنگدستی کی آگ میں جھونکنا شروع کردیا۔ اس سے بڑھ کر ناانصافی بھلا اور کیا ہوگی۔ اگلے روز کام پر جانے کے لئے فیقا مشکی کے پاس آیا، اس کی پیٹھ پر ہاتھ رکھا تو اسے لگا جیسے اس نے تپتے ہوئے توے پر ہاتھ رکھ دیا ہو۔ اسے تو تیز بخار تھا۔ بھلا فیقے کے پاس ٹھنڈی جگہ کہاں سے آتی۔ اس نے تو اسے وہیں پر باندھ رکھا تھا جو جگہ اس کے لئے مخصوص تھی۔ البتہ اتنا ضرور کیا کہ اس نے وہاں ایک فرشی پنکھا لگا دیا تھا لیکن وہ پنکھا بھلا اسے اتنی ٹھنڈک کیسے پہنچا سکتا تھا جتنی کہ اس وقت مشکی کو ضرورت تھی۔ فیقے نے کافی دوا دارو کی لیکن اس کے مشکی کو کوئی افاقہ نہ ہوا، آخر وہ چند روز موت و حیات کی کشمکش میں رہ کر زندگی کی بازی ہار گیا اور اس روز کی آگ برساتی دھوپ نے اسے ہمیشہ کے لئے نگل لیا، جس دھوپ میں فیقا اسے لے کر نکلا تھا۔ اب فیقے کا اس کی موت پر دھاڑیں مار مار کر رونا کس لئے؟ کہتے ہیں جب وہ مرا تو اس کی دونوں آنکھیں کھلی ہوئی تھیں اور ان میں رستا ہوا پانی کچی جگہ کی مٹی میں جذب ہو رہا تھا۔ جب فیقے نے اس کی کھلی آنکھوں کی طرف دیکھا تو اسے لگا جیسے وہ اسے کچھ کہہ رہی ہوں۔ شاید وہ آنسوؤں سے بھیگی ہوئی آنکھیں فیقے سے تقاضا کررہی تھیں کہ وہ آج بھی اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہے۔ ”اُٹھ پتر مشکی۔ آج کام پر نہیں جانا ہے کیا“؟