سرفراز فرید نیہاش
خوش لباس، رعب دار شخصیت کا مالک اسلم ڈار مرحوم پاکستان کی فلمی صنعت میں اپنے کام اور نام کے حوالے سے ایک بہت ہی اہم شخص تھے۔ انہوں نے اپنی منفرد کارکردگی اور فلموں کے موضوعات کی وجہ سے اپنی ایک علیحدہ شناخت بنائی تھی۔ ان کے والد ایم ایس ڈار، پاکستان کی فلمی صنعت کے بانیان میں تھے۔ اسلم ڈار جب پانچویں جماعت میں پڑھتے تھے، تو ان کے ذہن میں ایک مصور کا خواب تھا۔ پاکستان بنتے ہی وہ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ چکے تھے۔ وقت کے ساتھ ان کے خیالات نے بھی کروٹ لی اور انہوں نے فلم ڈائریکٹر بننے کا فیصلہ کرتے ہوئے فلم کے سینئر اور معروف عکاس، فلم ساز، ہدایت کار جعفر شاہ بخاری کی شاگردی اختیار کرلی۔ فلم سے متعلق تمام اہم شعبہ جات کو بڑی گہرائی اور دلچسپی سے دیکھنے اور سمجھنے کے بعد وہ فلم ڈائریکٹر بنے۔ جعفر شاہ بخاری کے ساتھ بطور معاون عکاس کئی فلمیں کیں۔ ان کے والد ایم ایس ڈار نے 1956ء میں فلم ”سردار“ بطور ہدایت کار بنائی۔ یہ بطور عکاس اسلم ڈار کی پہلی فلم تھی۔ یہ فلم 1957ء میں ریلیز ہو کر بے حد کامیاب رہی۔ صبیحہ، سنتوش، نذر، آشا پوسلے اس فلم کے خاص اداکار تھے۔ بطور ہدایت کار پہلی بار ان کا نام ایڈونچر مووی ”دارا“ کے ٹائٹل پر آیا، جس کے فلم ساز میاں مشتاق تھے۔ اس فلم کی کہانی اور موضوع خود اسلم ڈار نے منتخب کیا۔ یہ جنگل ایڈونچر ٹارزن کے سبجیکٹ پر بننے والی پہلی پاکستانی فلم تھی، جس میں اپنے دور کے مسٹر پاکستان نصراللہ بٹ نے ٹارزن کا کردار کیا تھا۔ نصراللہ بٹ گوال منڈی کے رہنے والے تھے، اداکاری سے مکمل نابلد تھے۔ باڈی بلڈر جسامت جو ٹارزن کے کردار کے لئے اسلم ڈار کو چاہئے تھی، وہ ان کے پاس تھی، جسے انہوں نے ”دارا“ کے کردار میں پیش کرکے فلم بینوں سے بڑی داد اور کامیابی پائی۔ فلم کی ہیروئن کے لئے اداکارہ رانی کو کاسٹ کیا۔ یہ منفرد اور انوکھا تجربہ اس قدر کامیاب ہوا کہ وہ اپنی پہلی ہی فلم سے ایک کامیاب ہدایت کار کے طور پر سامنے آئے۔ ”دارا“ کی کامیابی کے بعد فلم ساز میاں مشتاق نے انہیں اپنی دوسری فلم ”آخری چٹان“ کے لئے راضی کرلیا۔ یہ تاریخی کہانی پر مبنی ایک بہت ہی عمدہ ایکشن اور کاسٹیوم فلم تھی، جس میں ایک بار پھر رانی اور نصراللہ بٹ کی جوڑی کو عوام نے بے حد پسند کیا۔ اس فلم میں ایکسٹرا اداکار کے طور پر کام کرنے والے اداکار سلطان راہی نے پہلی بار سائیڈ ہیرو کا رول کیا۔ اس فلم کا ایک گانا ”ہم ہیں دیوانے تیرے عاشق پروانے“ سدا بہار سپرہٹ نغمہ ثابت ہوا۔ اس فلم میں ڈار، مزاحیہ اداکار رنگیلا کو کاسٹ کرنے گئے، تو انہوں نے انکار کردیا، پھر ان کی جگہ ایک چھوٹے قد کے بونے اداکار رفیق ٹینگو کو انہوں نے کاسٹ کیا اور ان کے ساتھ ایک اور ٹینگو اداکار مینگو کو لیا۔ یہ ان دونوں بونے قد کے اداکاروں نے ایسی شاندار کامیڈی کی کہ عوام نے انہیں بے حد سراہا۔ ”آخری چٹان“ کی ملک گیر کامیابی کے بعد اسلم ڈار نے اپنی لافانی کہانی پر مبنی فلم ”دل لگی“ کی کہانی جب فلم ساز کو سنائی تو انہوں نے اس کہانی کو مسترد کردیا۔ ایک بار فلم ساز نے ان سے کاسٹیوم ایکشن فلم ”سخی لٹیرا“ بنوائی جس میں پہلی بار اسلم ڈار نے بطور ولن شاندار اداکاری کا مظاہرہ کیا۔ فلم میں رانی اور نصراللہ بٹ مرکزی کرداروں میں تھے۔ ایک نئی لڑکی اداکارہ نمو کو پہلی بار اس فلم متعارف کروایا۔ ”سخی لٹیرا“ کے بعد اسلم ڈار نے ایک جاسوسی موضوع پر ”مسٹر 303“ بنائی۔ سابقہ فلموں کی طرح اس بار بھی رانی اور نصراللہ بٹ فلم کے مرکزی کرداروں میں تھے۔ یہ فلم سنسر کی سختی کا شکار ہو کر جب ریلیز ہوئی تو نمایاں کامیابی حاصل نہ کرسکی۔
”مسٹر 303“ کے بعد ایک اور جاسوسی موضوع پر فلم ”مجرم کون“ شروع کی، جس میں معروف ٹی وی اینکر ضیاء محی الدین کو پہلی بار بطور ہیرو کاسٹ کیا۔ اداکارہ روزینہ اس فلم کی ہیروئن تھیں۔ یہ وہ زمانہ تھا، جب رانی نے حسن طارق سے شادی کرلی تھی۔ نصراللہ بٹ اس طرح کی فلموں کے لئے موزوں نہیں رہے تھے۔ ”مجرم کون“ بلاشبہ ایک معیاری نغماتی، سسپنس فل مووی تھی، مگر ضیاء محی الدین کو فلم بینوں نے بطور ہیرو مسترد کردیا تھا، جس کی وجہ سے یہ فلم ناکام ہوگئی۔ فلم میں نورجہاں کا گایا ہوا یہ مقبول گیت ”میرے محبوب میرے پیار کے قابل تو ہے“ آج بھی اسی طرح مقبول ہے۔ ”مجرم کون“ کے بعد انہوں نے اپنی پہلی پنجابی فلم ”بشیرا“ کا آئیڈیا جب اپنے فلم سازوں کو سنایا اور بتایا کہ اداکار سلطان راہی اس فلم میں ٹائٹل رول کریں گے، جس پر فلم ساز رضامند نہ ہوئے کہ اس دور میں اداکار ساون پنجابی فلموں میں کامیاب ٹائٹل رول کررہے تھے۔ ”انورا“ ”خان چاچا“ کی کامیابی کے بعد فلم ساز، اداکار ساون کو ٹائٹل رولز میں کاسٹ کرنے کی بات کرتے، مگر اسلم ڈار نہ مانے۔ انہوں نے سلطان راہی سے اس وقت ایک وعدہ کیا تھا کہ ”میں بطور ڈائریکٹر جب بھی کوئی پنجابی فلم بناؤں گا، تو تمہیں ہیرو لوں گا۔ یہ وعدہ انہوں نے فلم ”اسمگلر“ کی عکس بند کے طور کیا تھا، پھر جب ”بشیرا“ بنانے کا وقت آیا تو سلطان راہی کے پاس گئے اور اپنا وعدہ پورا کیا۔ سلطان راہی کا نام سن کر کوئی فلم ساز سرمایہ لگانے کے لئے تیار نہ تھا، تو اسلم ڈار نے اس فلم کو خود بنانا شروع کیا۔ اس فلم میں قمر بٹ ان کے پارٹنر تھے۔ ”بشیرا“ جب ریلیز ہوئی تو اس نے پنجابی سنیما میں کامیابی کی ایک نئی تاریخ رقم کی۔ ”بشیرا“ کے بعد سلطان راہی اسٹار بن گئے۔ سانحہ مشرقی پاکستان کے پس منظر میں انہوں نے اپنی اُردو فلم ”زرق خان“ بنائی، جس میں سلطان راہی اور عالیہ نے مرکزی کردار ادا کئے تھے۔ اس فلم میں انہوں نے ان دکھوں اور جذبات کا اظہار کیا تھا، جو اس حادثے کی شکل میں پیش آئے تھے۔ ”زرق خان“ 1973ء کی عیدالفطر کی تمام اُردو فلموں سے زیادہ کامیاب اور پسند کی گئی۔ ”زرق خان“ کی کامیابی کے بعد رومانی فلم کا برسوں سے جو خیال ان کے ذہن میں تھا، اسے عملی جامہ پہنانے کے لئے انہوں نے اپنی فلم ”دل لگی“ کا آغاز کیا۔ بطور ہیرو ان کے ذہن میں پہلے وحید مراد کا نام تھا، مگر جب انہوں نے اداکار ندیم کو دیکھا تو اپنا خیال بدل دیا اور ندیم کے مقابل شبنم کو ہیروئن لے کر ایک ایسی بے مثال اور عمدہ فلم بنائی، جو پاکستان کے ہر اسٹیشن پر بے حد کامیاب رہی اور آج بھی یہ فلم اپنی عمدہ کہانی، میوزک اور اداکاروں کی پرفارمنس کی وجہ سے بے حد مقبول ہے۔
آل ٹائم سپرہٹ اس فلم کے لئے بطور ہیروئن شبنم سے قبل ڈار نے اداکارہ ممتاز کو کاسٹ کرنا چاہا، مگر وہ دیگر فلموں میں مصروفیت کے باعث ان کی فلم میں کام نہ کر پائیں۔ ممتاز اس دور میں بطور ہیروئن اُردو اور پنجابی فلموں میں کاسٹ ہورہی تھیں۔ اسلم ڈار کی کسی فلم میں وہ بعد میں کاسٹ نہ ہو پائیں۔ فلم ”بشیرا“ کی پورے ملک میں زبردست کامیابی نے انہیں فلم ساز اور ڈسٹری بیوٹر بنا دیا۔ ”دل لگی“ کے بعد انہوں نے ایک پنجابی فلم ”بابل صدقے تیرے“ بنائی، جو باپ اور بیٹی کے پاکیزہ رشتے پر مبنی ایک اصلاحی فلم قرار پائی۔ سلطان راہی اور عالیہ کو اس بار انہوں نے باپ اور بیٹی کے کرداروں میں پیش کرکے ایک نیا کامیاب ریکارڈ بنایا۔ ”بشیرا“ کے بہن، بھائی، ”زرق خان“ کے ہیرو، ہیروئن کو عوام نے بطور باپ، بیٹی پسند کرکے ان کے اس تجربے کو کامیاب بنایا۔ یہ اپنی نوعیت کا پاک و ہند کی فلمی صنعت میں پہلا اور انوکھا تجربہ تھا کہ کسی میل اور فیمیل آرٹسٹ کو تین مختلف رشتوں میں دکھایا گیا اور ہر بار عوام نے انہیں پسند کیا۔ مایہ ناز رومانی ہیرو وحید مراد کو انہوں نے اپنی دو فلموں ”زبیدہ“ اور ”وعدہ“ کے لئے بالترتیب نِشو اور آسیہ کے مقابل ہیرو کاسٹ کیا۔ دونوں فلمیں اپنی موسیقی اور نغمات کی وجہ سے آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں محفوظ ہیں۔ ”زبیدہ“ میں بابرہ شریف نے بھی اہم رول ادا کیا، جب کہ ”وعدہ“ میں دیبا نے بے حد عمدہ اداکاری کا مظاہرہ کیا۔ باکس آفس پر یہ دونوں فلمیں کوئی زیادہ کامیابی حاصل نہ کر پائیں۔ معروف اداکارہ مسرت شاہیں کو بطور مہمان فلم ”زبیدہ“ میں کاسٹ کیا۔ یہ ان کا ابتدائی دور تھا۔ لیجنڈ اسٹار محمد علی کو اسلم ڈار نے پہلی بار اپنی یادگار کلاسیکل، نغماتی فلم ”پہلی نظر“ میں پاور فل اسٹائل میں پیش کیا۔ ان کا کردار جانی بدمعاش کا تھا۔ اس فلم کی کہانی تقسیم ہند کے پس منظر میں فلمائی گئی تھی۔ یہ ایک ٹرائی اینگل لو اسٹوری تھی، جس میں محمد علی، بابرہ شریف اور ندیم نے مرکزی کردار ادا کئے تھے۔ اداکارہ آسیہ نے ہندو طوائف ”چمپا“ کے کردار میں اپنی اداکاری اور رقص کے انمنٹ نقوش چھوڑے۔ یہ فلم اسلم ڈار کے فنی کیریئر میں بڑی اہمیت کی حامل رہی۔ ایکشن، ایڈونچر، جاسوسی، کاسٹیوم، رومانی، معاشرتی فلموں کے بعد انہوں نے دو مکمل مزاحیہ فلمیں ”بڑے میاں دیوانے“ اور ”سیاں اناڑی“ بنائیں۔ ”بڑے میاں دیوانے“ سینئر اداکار آغا طالش کے کیریئر کی ایک یادگار فلم تھی، جس میں انہوں نے 5 بیٹوں کے ایسے باپ کا کردار ادا کیا، جس کی بیگم مر چکی ہے، بیٹے اپنے باپ کو دوسری شادی کرنے کے لئے کہتے ہیں اور پھر وہ بیٹوں کے چکر میں آکر دیوانے ہوجاتے ہیں۔ آسیہ اور ندیم نے اس فلم میں مرکزی کردار ادا کئے تھے، جب کہ آغا طالش اور تمنا کا پیئر لوگوں نے بے حد پسند کیا۔ ”سیاں اناڑی“ میں اداکار ندیم نے ایک بار پھر ایک بھولے بھالے دیہاتی کے کردار میں عمدہ مزاحیہ اداکاری سے فلم بینوں کو خوب متاثر کیا۔ اداکارہ شبنم نے ان کی ہیروئن کے کردار میں لاجواب اداکاری کی۔ فلم کا میوزک بھی بے حد اچھا تھا۔ مجموعی طور پر یہ ایک عمدہ مزاحیہ فلم تھی۔ پنجاب کے عظیم پہلوانوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے اسلم ڈار نے ایک بہت ہی خوب صورت پنجابی فلم ”گوگا“، جس میں مصطفیٰ قریشی نے بطور گوگا کردار ادا کیا جبکہ یوسف خان اور آسیہ نے مرکزی کردار ادا کئے۔ دردانہ رحمن اور حبیب کے علاوہ نصراللہ بٹ نے بھی اہم کردار ادا کئے تھے۔ جہیز کی لعنت کے خلاف اور بہت ہی اعلیٰ اصلاحی ”انوکھا داج“ کا شمار بھی اسلم ڈار کی لاجواب اور خوبصورت فلموں میں ہوتا ہے۔ اداکارہ دردانہ رحمن نے ایک پنجابی فلم میں بطور ہیروئن وحید مراد کے ساتھ کام کرکے اپنا شمار ان کی ہیروئنز میں کروایا۔ اس معاشرتی، اصلاحی فلم میں سلطان راہی اور آسیہ نے مرکزی کردار پلے کئے تھے جبکہ تانی بیگم اور شیخ افضال نے بھی اپنی کردار نگاری کا خوب رنگ جمایا تھا۔ 1984ء میں اسلم ڈار نے ایک رومانی اور نغماتی پنجابی فلم ”عشق نچاوے گلی گلی“ بنائی جس میں دردانہ رحمن اور ایاز نائیک نے رومانی کرداروں میں لازوال کردار نگاری کی۔ اس فلم کو پورے پاکستان میں سپرہٹ قرار دیا گیا۔
اسلم ڈار کی ہدایت میں بننے والی چند اور فلموں میں ”سہاگ تیرا لہو میرا“ ”دو دل“ ”باغی شیر“ ”شاہ زمان“ ”سلسلہ“ ”داغ“ ”قدرت دا انتقام“ ”پیار کرن توں نئیں ڈرنا“ ”سلسلہ پیار دا“ ”پھول“ ”ہم تمہارے ہیں“ ”ڈولی سجا کے رکھنا“ کے نام شامل ہیں۔ فوٹو گرافی سے ہدایت کار، فلم ساز اور ڈسٹری بیوٹر کا سفر اسلم ڈار نے بڑے باوقار انداز سے طے کیا۔ فلمی صنعت کے لوگوں میں ان کی عزت و مقام کا سبھی خیال رکھتے تھے۔ فلم ڈائریکٹرز ایسوسی ایشن کے وہ تاحیات چیئرمین تھے۔ انہوں نے اس ایسوسی ایشن کو فعال رکھنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ فلمی دنیا سے تعلق کے علاوہ وہ ملکی اخبارات میں کالم نویسی بھی کرتے رہے۔ ان کے تجزیئے سیاسی اور معاشرتی حالات کا عکس ہوتے تھے۔ ان کے ایک بھائی سعید ڈار بھی بطور فوٹوگرافر فلمی دنیا میں رہے۔ بطور ہدایت کار ایک فلم ”اب گھر جانے دو“ بھی بنائی، جس کے فلم ساز اسلم ڈار تھے۔ ان کے صاحبزادے راحیل ڈار بھی فلمی دنیا میں آئے، مگر یہاں کے حالات اور ماحول دیکھ کر جلد ہی وہاں سے لوٹ گئے۔ 24 دسمبر 2015ء کو اسلم ڈار اس جہان فانی سے وفات پا گئے۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔