Thursday, May 9, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

فرانس اسلاموفوبیا کا شکار

آپ کی آزادیئ اظہار کے متعلق دلیل بھی ناقص ہے کیونکہ یہ معاملہ ملعون سلمان رشدی کی 1988ء میں شائع ہونے والی بدنام زمانہ کتاب کے بعد نمٹا دیا گیا تھا، اکیسویں صدی کا معاشرہ ایسی آزادیئ اظہار کی مذمت کرتا ہے جو بالواسطہ یا بلاواسطہ لوگوں کے ایک بڑے طبقے کے جذبات کو مجروح کرتی ہو
ترجمہ: صادق حسین جعفری

The absurdity of France’s Islamophobia

جناب انعام الحق صاحب کا یہ انگریزی مضمون ایک عالمانہ تبصرہ ہے جو دل کو لگا ہے، چاہتا ہوں کہ یہ حقائق اُردو دان قارئین کی نگاہوں تک پہنچیں۔ ترجمہ پیش خدمت ہے۔ جناب صدر اسلام کے خلاف آپ کی ہرزہ سرائی، آپ کے ہم نواؤں کی منفی سوچ کی عکاس ہے۔ دراصل آپ کی اسلام دشمنی کی وجہ مذہب اسلام کے بارے میں آپ کی کم علمی ہے جو مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے کی کوشش ہے، جنہیں آپ غیرمہذب اور منتشر قوم ہونے کا الزام دیتے ہیں اور مذہب کو ریاست سے علیحدہ کرنے کے بل کی آڑ میں کلیسائی تفریق کو مضبوط کرنے اور مسلمانوں کو فرانس کے کم درجے کے شہری قرار دلوانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ آپ کا کہنا ہے کہ عالمی سطح پر اسلام بحرانوں کا شکار ہے اور آپ کی حکومت پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت کے بارے میں توہین آمیز اور مضحکہ خیز خاکے شائع کرنے اور ان کی وسیع پیمانے پر تشہیر کی حمایت کرتی ہے جسے آپ ”آزادیئ اظہار“ کا نام دیتے ہیں اور آپ کا دعویٰ ہے کہ فرانس کے لوگ بھی اسے درست سمجھتے ہیں۔ پہلے ہم اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ کیا واقعی اسلام بحران سے دوچار ہے؟ اس حقیقت کو سمجھنے کے لئے آپ پہلے اسلام، اس کے تعمیری ڈھانچے، متبرک اصولوں اور اسلام کے ماننے والوں کی دینی اساس کے درمیان بنیادی فرق کو سمجھیں۔ اسلام کے پیروکار مختلف نظریات، مسالک و عقائد پر مشتمل گروہ ہیں جو دیگر دین ابراہیمی، عیسائیت اور یہودی مذاہب کے پیروکاروں کی طرح الہامی کتب کی مختلف تشریحات کے قائل ہیں۔ ان میں کچھ ناعاقبت اندیش ایسے بھی ہیں جو ممنوعہ کاموں کو جائز قرار دینے کے لئے قرآنی آیات کی سیاق و سباق سے ہٹ کر تشریح کرتے ہیں، جو کسی بھی مذہب میں جائز نہیں ہے۔ کیا آپ کہہ سکتے ہیں کہ عیسائیت اس وقت بحرانوں کا شکار تھی جب 2019ء میں ایک عیسائی جنونی نے نیوزی لینڈ میں واقع کرائس چرچ کی مسجد پر حملہ کیا تھا اور کتنے معصوم مسلمان عبادت گزاروں کو قتل کردیا تھا؟ نہیں، کیونکہ کسی ایک فرد کا ذاتی فعل پورے مذہب کی نمائندگی نہیں کرتا۔ مجھے اُمید ہے کہ آپ کو دنیا کی تاریخ کا اتنا علم ضرور ہوگا کہ سولہویں سے اٹھارہویں صدی کے دوران یورپ نے ایشیا اور افریقی سیاہ فاموں پر تسلط قائم کرنے کی غرض سے مذہب کے نام پر لڑی جانے والی جنگوں کے اور عیسائی مشنریوں کی جانب سے طاقت کے بل بوتے پر دوسروں کے مذاہب تبدیل کرانے اور انہیں ”سفید فاموں پر بوجھ“ سمجھتے ہوئے مہذب بنانے کے بہانے اور غلام بنانے کی غرض سے ان بدقسمت ممالک کے عوام پر کس قدر ظلم ڈھائے گئے۔ کیا ان مظالم کی حقیقت کو آپ سمجھ سکیں گے؟ کیا ہم ایسے بے لگام جرائم اور غلطیوں کو اور اقتصادی مفادات کی خاطر مالی جیسے ملک پر آج تک جاری مظالم کو عظیم عیسائی مذہب کی رواداری سے منسوب کرسکتے ہیں؟ تعجب ہے کہ آج آپ 1789-99ء کے انقلاب فرانس کے اعلیٰ اصول ”آزادی، مساوات اور بھائی چارے“ کے سیاسی بیانیے کے حوالے سے کتنا دور ہیں؟ اور اگر ہیں تو وولٹائر – 1694-1778) اور جین جیکوئس روسو ( – 1712-1778) اور اسی طرح کی کئی دیگر شخصیات جس مقصد کے لئے برسرپیکار تھیں، کیا وہ سب عیسائی مذہب کے ماننے والوں کے لئے تھا؟ آج کی بحث ایسے لاکھوں فرانسیسی مسلمانوں کے بارے میں ہے جو ”سیکولر جمہوریت“ کا مطلب سمجھنے سے قاصر ہیں۔ ایک فرانسیسی رائے شماری کمپنی (آئی ایف او پی) کے اندازے کے مطابق 2016ء میں فرانسیسی مسلمانوں کی تعداد چار ملین تھی۔ مسلسل ترک وطن کرنے والوں اور فرانس کے زیراثر کی وجہ سے اس تعداد میں اب کہیں زیادہ اضافہ ہوچکا ہے اور اب وہ آپ کے ملک کی دوسری بڑی آبادی ہے جس کے عظیم پیغمبر کی توہین کرکے اوران کے جذبات کو مجروح کرنے کے جرم پر خوش ہورہے ہیں، جو نہ صرف بُری سیاست ہے بلکہ بدترین قیادت کی بھی علامت ہے۔ یہ بھی آپ کے شہری ہیں، آزادی، مساوات اور بھائی چارے کے اصول ان پر بھی لاگو ہوتے ہیں، خصوصاً اسکارف پہننے کی خواہشمند خواتین کو ان کا جائز حق دینا، رواداری اور اصول کا متقاضی ہے۔ آپ کی آزادیئ اظہار کے متعلق دلیل بھی ناقص ہے کیونکہ یہ معاملہ ملعون سلمان رشدی کی 1988ء میں شائع ہونے والی بدنام زمانہ کتاب کے بعد نمٹا دیا گیا تھا۔ اکیسویں صدی کا معاشرہ ایسی آزادیئ اظہار کی مذمت کرتا ہے جو بالواسطہ یا بلاواسطہ لوگوں کے ایک بڑے طبقے کے جذبات کو مجروح کرتی ہو۔ آپ کے عریان ساحل آپ کا اپنا مسئلہ ہیں لیکن اسلام سمیت کسی کے مذہبی عقائد کی تضحیک سے مسائل پیدا ہوں گے۔ مسلمان کسی بھی قسم کی عقائد کو مجروح کرنے والی سوچ کی آزادی پر یقین نہیں رکھتے اور نہ ہی آپ کو ایسا کرنا چاہئے تھا کیونکہ آپ ایک مہذب ملک کے منتخب صدر ہیں جس میں لاکھوں مسلمان بھی شامل ہیں۔ الغرض جنا ب صدر، اسلام بحران کا شکار نہیں ہے کیونکہ آج کوئی ایسا مسلمان بحران میں مبتلا نہیں ہے جو اپنے مذہب اور حقوق کا دفاع کرنے کی اہلیت نہ رکھتا ہو اور اپنے عظیم مذہب کے بارے میں پھیلائے جانے والے بے بنیاد پروپیگنڈے کی وجہ سے تذبذب کا شکار ہو۔ مسلمان اپنے مذہب سے منسلک کی جانے والی بے بنیاد غلطیوں پر بلاوجہ معذرت خواہ نہیں ہوسکتے ہیں۔ کیا ایسا دین بحران کا شکار ہوسکتا ہے جسے خود اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ہو؟ خصوصاً جبکہ ہم سب اور آپ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی سب سے بڑی طاقت ہے جو ہر چیز کا علم رکھتا ہے اور ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ کیا آپ نے کبھی گمان کیا کہ عیسائیت بحران میں مبتلا ہے یا یہودیت زوال پذیر ہے؟ جناب صدر میکرون، یاد رکھیں اسلام بحران میں مبتلا نہیں ہے بلکہ بحران میں مبتلا ہمارے کم فہم حکمران ہیں اور معاشرے میں نمایاں مقام رکھنے والے لوگ ہیں، جو اللہ تعالیٰ کی جانب سے نازل کئے جانے والے دین حق کی مکمل سوجھ بوجھ نہ رکھنے کے سبب عام مسلمانوں کے ذہنوں کو کنٹرول کرنے سے پہلے ان کی زبانوں کو کنٹرول کرنا چاہتے ہیں۔ اسلام ابدی دین ہے جسے دوام حاصل ہے۔ ہمارا ایمان ہے کہ آخرکار ہم سب کو اپنے خالق حقیقی کے حضور پیش ہونا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ مستقبل میں بہت سے فرانسیسیوں کی اولادیں اسلام کی حقانیت کو تسلیم کرتے ہوئے مسلمان ہوجائیں۔ کرونا وائرس کی ویرانی، انسان کے تخلیق کردہ عالمی نظام کو تباہ کرنے کے درپے ہے۔ کیا معلوم اس کی راکھ سے ایک عادلانہ اور غیراستحصالی نظام ابھرے۔ کسے معلوم کہ رضائے الٰہی کیا ہے؟ یہ وہی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں جنہوں نے بادشاہ نجاشی سے دوستانہ تعلقات استوار کئے جو موجودہ دور کے ایتھوپیا کے عیسائی حکمران تھے۔ یہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کا ہی اثر تھا جس نے دیگر مذاہب کی عبادت گاہوں کی حرمت کو پامال ہونے سے محفوظ فرمایا اور حکم دیا کہ جنگ کے ماحول میں جو لوگ عبادت گاہوں میں پناہ لے لیں انہیں چھوڑ دیا جائے اور آج سے 1400 سال سے بھی زیادہ عرصہ قبل دیگر مذاہب اور ان کے پیروکاروں کی حرمت کو یقینی بنایا اور یہ سب کچھ اس وقت ہوا جب یورپ آزادی، مساوات اور بھائی چارے کے مفہوم سے بھی ناآشنا تھا اور وہ غلامی اور استحصال کی چکی میں پس رہا تھا۔ لہٰذا آپ کو ابھی بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ محض سیاسی فوائد حاصل کرنے کی خاطر لاکھوں کی تعداد میں اپنے ہی شہریوں کے آفاقی مذہب پر تنقید کی بجائے، آپ کو بدامنی کی اصل وجوہات تلاش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ آزادی، مساوات اور بھائی چارے کے ثمرات کو تمام طبقات تک پھیلایا جاسکے۔ نسلی تفریق اور آئے روز یہودی شہریوں کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف روا رکھا جانے والا امتیازی سلوک بھی اس کی ایک وجہ ہے جبکہ عیسائیت کی آفاقیت، ذرائع ابلاغ پر اسلام کے خلاف نہ ختم ہونے والا منفی پروپیگنڈا، اور آپ کے جیسے غیرمحتاط بیانات ہیں۔ مذموم عزائم کی خاطر وسیع پیمانے پر پھیلایا جانے والا دل آزار مواد بھی بدامنی کی ایک بڑ ی وجہ ہے۔ یہ باتیں آپ کے ملک میں رہنے والے پُرامن اور معصوم لوگوں کو غیرضروری طور پر جانبدار ہونے پر مجبور کررہی ہیں جو معاشرے میں نفرت اور کشیدگی کا سبب بنے گا۔ معاشرتی عدم مساوات اور آپ کے ملک میں بسنے والے مسلمانوں کو مواقع سے محروم کرنا ایسے مسائل ہیں جو آپ کی اور فرانسیسی حکومتوں کی توجہ کے طالب ہیں۔

”اسلام دشمنی کی بھاری دیوار کے پیچھے چھپ کر بیٹھنا مسائل کا حل نہیں ہے۔“
یاد رکھیئے، آپ جیسے لوگوں کے لئے ہی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا ”رحم دلی ایمان کی علامت ہے اور جو رحمدل نہیں، اس کا کوئی دین نہیں ہے۔“ آپ کو چاہئے کہ اس حدیث مبارک کو مشعل راہ بنائیں جو آپ کو اسلام کے بارے میں صحیح فیصلہ کرنے کی بصیرت عطا کرے اور آپ کو فرانس کی اقتصادیات پر توجہ مرکوز کرنے کی توفیق عطا کرے۔

مطلقہ خبریں