Monday, July 28, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

غمگسار ہی نہ ملا

ایک قابل نوجوان کی دُکھ بھری سچی کہانی
مصطفی حبیب صدیقی
یہ کہانی عجیب بھی ہے اور نہایت سبق آموز بھی، اس سچی کہانی کی تمام تر سچائی جاننے کے لئے مجھے کم و بیش چار ماہ لگے، محلے والوں سے بات چیت کرنے کے بعد اس کہانی کے مرکزی کردار عادل کے بھائیوں اور والد سے ملاقاتیں کیں، معالج سے ملا، حتیٰ کہ بڑی تگ ودو کے بعد عادل سے بھی ملاقات ہوگئی، عادل ذہنی معذور ہوچکا ہے اور ان دنوں پاگل خانے میں ہے۔ عادل سے ملاقات کے دوران مجھ پر حملہ بھی ہوا جس سے میں کچھ زخمی ہوا، اس کی تکلیف آج ایک ماہ گزرنے کے باوجود محسوس کررہا ہوں مگر سچائی جاننا ضروری تھا اور پھر لکھنے بیٹھا۔ ایک ”آمریت سے بھرپور“ گھرانے میں ذہین اولاد کا کیا انجام ہوتا ہے، ہم سب کے لئے سبق ہے۔ آئیے کہانی پڑھتے ہیں۔
شفیع الدین صاحب کے 12 بچے تھے، 5 بیٹے اور 7 بیٹیاں، وہ خود ایک محلے کی ایک کمیٹی کے رکن بھی تھے جو بعدازاں اس کے صدر بنا دیئے گئے۔ شفیع الدین کو اپنی اصول پسندی، کھرے پن اور حق گوئی کا بڑا زعم تھا۔ گھر میں بڑی تعداد میں بچے ہونے کے باوجود ان کے داخل ہوتے ہی ”پن ڈراپ سائیلنٹ“ کی سی کیفیت ہوجاتی تھی۔ بچے باپ کو دیکھ کر مسکرانا بھی بھول جاتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ یہی بچوں کی تربیت ہے۔ کیفیت یہاں تک تھی کہ بیٹے عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ اپنی جسمانی ساخت میں ہونے والی تبدیلی کا اظہار ایک دوسرے سے بھی نہیں کرسکتے تھے۔ شرم وحیا کے نام پر گھر میں بند اور گھٹا ہوا ماحول تھا۔ بڑے دو بچوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور ملازمت کی کوششیں شروع کردیں تاہم ان کی شادی کے لئے شفیع الدین صاحب کی کڑی شرائط نے دونوں کو بغاوت پر مجبور کردیا تھا اور ایک بیٹے نے پسند کی شادی کی اور پہلے ہی روز گھر سے الگ ہوگیا۔ دوسرا بیٹا گھر میں رہا مگر باپ کی بے جا سختی کی وجہ سے وہ بھی گھر چھوڑنے پر مجبور ہوا۔ ادھر بیٹیوں کی شادی کے لئے خوب سے خوب تر کی کڑی شرائط کی وجہ سے بمشکل دو بچیاں بیاہ سکیں، باقی پانچ میں سے تین کے بالوں میں سفیدی جھلکنے لگی۔ شفیع الدین کا سارا زور تیسرے بیٹے عادل پر تھا جو پورے گھر میں سب سے زیادہ ہونہار اور ذہین تھا۔ شفیع صاحب کا خیال تھا کہ وہ اس بیٹے کو دین و دُنیا کی تمام تعلیم دلائیں گے۔ عادل نے حفظ کیا، عالم کا کورس کیا، درس نظامی سے فارغ ہوا۔ پھر میٹرک بھی کیا جس کے بعد انٹر کرتے ہی اسے اسلام آباد کی اعلیٰ یونیورسٹی میں ایل ایل بی شریعہ کے لئے بھیج دیا گیا۔ بس یہیں سے اصل کہانی شروع ہوتی ہے۔
عادل ایک ایسے گھر میں پلا بڑھا تھا جہاں باپ کی ایک آواز پر گھر کا ہر فرد کانپنے لگتا تھا، باپ خود کو عقلِ کُل سمجھتا اور بچوں کو غلام سے بدتر خیال کرتا تھا، اس کی مرضی کے بغیر ایک سوئی بھی یہاں سے وہاں رکھنے کی اجازت نہیں تھی۔ مگر اسلام آباد کی یونیورسٹی کی کھلی فضا میں پہنچتے ہی عادل کی تو دُنیا ہی بدل گئی۔ اس کے لئے یہ آزادی کسی نعمت سے کم نہ تھی اور وہ بھی ایسی نعمت جس کا تصور بھی محال تھا۔ اسلام آباد میں عادل نے دل لگا کر پڑھائی تو کی تاہم اس کی دوستی پوش علاقوں کے رہنے والے بگڑے رئیس زادوں سے ہوگئی۔ عادل نہایت ذہین اور پڑھنے میں لائق تھا اس لئے ہر لڑکا چاہتا تھا کہ اس کو اپنے ساتھ ملا کر رکھے تاکہ امتحان میں وہ اس لڑکے کا سہارا بن سکے۔ عادل جو ایک گھٹن زدہ ماحول میں 16 سال کی عمر تک پہنچا تھا، وہ اب اتنا کھلا ماحول دیکھ کر پاگل ہوگیا۔ چھوٹے سے گھر میں فرش پر پانچ بھائیوں کے ساتھ سونے والا عادل ہوسٹل میں نرم و ملائم بستر پر سوتے ہوئے خود کو کسی شہزادے سے کم نہیں سمجھتا تھا۔ دوستوں کے ساتھ بڑی بڑی گاڑیوں میں گھومنا پھرنا عادل کا معمول بن چکا تھا۔ مگر اس کی توجہ اپنی پڑھائی سے نہیں ہٹی تھی۔ وہ مسلسل اپنی تعلیم پر توجہ دیئے ہوئے تھا۔ اس دوران بس اتنا ہوا کہ بڑے باپ کی بگڑی اولادوں نے اس متوسط درجے کے نوجوان کو بھی بگاڑ دیا۔ وہ پہلے سگریٹ کا عادی ہوا۔ جس کے بعد عریاں فلموں کا شوقین ہوا۔ معاملہ یہاں تک نہیں رہا بلکہ اس سے آگے بڑھ گیا۔ اس کے کچھ لڑکیوں سے تعلقات استوار ہوئے۔ پھر بھی اس نے اپنی تعلیم پر توجہ برقرار رکھی۔
عادل کا ایک دوست کراچی میں تھا جسے وہ اپنا سب کچھ سمجھتا تھا۔ اسے خط بھی لکھا کرتا تھا مگر عادل نے اسے اپنی اس بگڑتی عادات کے بارے میں نہیں بتایا جبکہ اس دوست سے بھی وہ اب نالاں ہے۔ عادل نے ایک آخری خط اپنے دوست کو لکھا کہ اس نے ایل ایل بی شریعہ میں گولڈ میڈل حاصل کرلیا ہے اور اب واپس کراچی آرہا ہے جہاں اب وہ عملی زندگی کا آغاز کرے گا۔ کراچی واپسی سے ایک دو روز قبل عادل کے کمرے میں اس کے ایک بگڑے دوست جو کسی وڈیرے کا بیٹا تھا نے ایک ”تحفہ“ بھیجا۔ عادل خود پر قابو نہ رکھ سکا اور اس کے ساتھ رات گزار لی تاہم صبح ہونے تک وہ ایک بیماری میں مبتلا ہوچکا تھا۔ کراچی واپس آنے کے چند روز بعد وہ شدید بیمار ہوگیا مگر اپنے گھر کے بند ماحول اور باپ کے خوف کے باعث کسی کو اصل وجہ نہ بتا سکا۔ شفیع الدین صاحب اسے ڈاکٹروں کے پاس لے گئے مگر افاقہ نہ ہوا۔ ڈاکٹروں نے تجویز کیا کہ شاید اسے کوئی شدید ذہنی تناؤ ہے اور اس لئے اسے کسی ذہنی امراض کے ڈاکٹر کو دکھایا جائے۔ عادل اب بھی باپ کے خوف کی وجہ سے انہیں سچائی بتانے سے کتراتا رہا۔ حتیٰ کہ بڑے بھائی کو بھی کچھ نہ بتایا۔ شفیع الدین صاحب اسے شہر کے بہترین ماہر نفسیات کے پاس لے گئے۔ عادل کے دل میں ایک اُمید جاگی کہ بس اب وہ اپنی غلطی کا اعتراف ڈاکٹر صاحب کے پاس کردے گا اور وہ اس کے راز کو راز رکھتے ہوئے اس کا علاج کریں گے مگر یہ اس کی خام خیالی تھی۔ ڈاکٹر نے نہایت کم ظرفی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے عادل کی ہر بات اس کے باپ کو بتا دی۔ شفیع الدین یہ سنتے ہی آگ بگولا ہوگیا۔ عادل جیسے ہونہار بیٹے کو انہوں نے نہایت گھٹیا اور بدترین انسان قرار دے دیا۔ جس کے بعد عادل کو گھر میں جوان بہنوں کے سامنے پیٹا گیا۔ یہاں تک کہ پورے گھر کو معلوم ہوگیا کہ عادل سے کیا غلطی ہوئی ہے۔ عادل کو اپنی بہنوں کے سامنے ذلیل کئے جانے کا شدید دکھ پہنچا اور اب وہ واقعی ذہنی توازن کھونے لگا۔ باپ نے اس وقت بھی ہوش کے ناخن نہ لئے بلکہ عادل کو سمجھنے کے بجائے اسے سب سے الگ کردیا۔ ایک کمرے میں بند۔ چھوٹے بھائی جن کے سامنے عادل مثال تھا اب وہ باپ کے اشارے پر عادل پر ہاتھ اٹھانے لگے۔ وہ بہنیں جو اس پر جان چھڑکتی تھیں وہ اس سے کترانے لگیں۔ عادل واقعی پاگل ہونے لگا۔ عادل کو دوبارہ نفسیاتی اسپتال لے جایا گیا جہاں اسے بجلی کے جھٹکے دیئے جانے لگے۔ وقت تیزی سے گزرنے لگا اور عادل حالات سے مزید بدظن ہوتا چلا گیا۔ وہ لڑکا جو پورے محلے اور خاندان کی آنکھ کا تارا تھا اب دھتکارا جارہا تھا۔ باپ جو اپنے بچے کی غلطی پر اس کی انگلی تھام کر اسے سہارا دیتا ہے وہی اپنی سب سے قیمتی اولاد کو محض اپنی ناسمجھی کی وجہ سے مسلسل زندہ درگور کررہا تھا۔ پھر اس کی طبیعت کچھ سنبھل گئی۔ عادل اب شادی کرنا چاہتا تھا، اس نے ایک جگہ ملازمت کرلی۔ وکالت کی پریکٹس شروع کردی۔ اس نے بڑے بھائی کو سمجھایا کہ وہ شادی کرنا چاہتا ہے اس کی شادی کرا دی جائے تاکہ وہ اپنی زندگی گزارے مگر ان سب کا کہنا تھا کہ تم تو پاگل ہو۔ باپ نے بھی یہ کہہ کر دھتکار دیا کہ ایک پاگل سے کون شادی کرے گا۔ بہنیں یہ کہہ کر کترانے لگیں کہ کہیں اسے گھر میں دورہ نہ پڑ جائے۔ چھوٹے بھائی بھی بدتمیزی کرنے لگے۔ عادل لاکھ کہتا رہا کہ اسے کوئی بیماری نہیں ہے بلکہ وہ اپنے کئے پر شرمندہ ہے۔ عادل کی کسی نے ایک نہ سنی۔ وہ لڑکا جو ایل ایل بی شریعہ میں گولڈمیڈلسٹ تھا، اس کے میٹرک اور انٹر پاس بھائی اس پر تشدد کرتے اور یہ سب باپ کی شہہ پر ہوتا تھا۔ عادل کی والدہ بھی اپنے شوہر سے تنگ تھیں مگر ایک روائتی خاتون تھیں اور شوہر کے سامنے آواز اٹھانے کی جرأت نہیں کرسکتی تھیں۔
آخر ایک روز عادل گھر سے نکل گیا اور الگ رہنے لگا۔ گھر والوں نے بھی اسے ڈھونڈنے کی کوشش نہیں کی اور یہ سوچا کہ اچھا ہے کہ ایک کانٹا تھا جو خود ہی راستے سے ہٹ گیا۔ عادل نے بتایا کہ اس کے بڑے بھائی نے کافی عرصے اس کا علاج کرایا اور اس کے ساتھ رہا۔ بڑے بھائی کا کہنا تھا کہ عادل کو گھر میں نہیں رکھا جاسکتا کیونکہ وہ اپنی بیماری کی وجہ سے رشتوں کی تمیز کھو چکا تھا اور کسی بھی وقت، کسی پر بھی حملہ کرسکتا تھا اس لئے اسے گھر سے نکال دینا ہی حل تھا۔ عادل نے گھر سے نکلنے کے بعد ایک دکان پر ملازمت کرلی جہاں اس کی ملاقات ایک بیوہ خاتون سے ہوئی، اصل میں یہ دکان اسی خاتون کی تھی۔ خاتون کے بچے 22 اور 24 سال کے تھے۔ عادل نے اسے شادی کی پیشکش کردی اور حیرت انگیز طور پر اس نے قبول بھی کرلی جس کے بعد دونوں کی شادی ہوگئی۔ شادی کے بعد تین سال سکون سے گزر گئے، پھر ایک دن کسی بات پر عادل کا جھگڑا ہوا اور اس نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی۔ بس ایک مرتبہ پھر عادل کو دورے پڑنے شروع ہوگئے۔ بیوی کے بچوں نے اسے گھر سے نکال دیا۔ وہ سڑک پر مارا مارا پھرتا رہا۔ ایک دوست نے سہارا دیا تو اس نے صرف ایک التجا کی کہ بس ایک مرتبہ مجھے میری امی اور ابو سے ملوا دو۔ میں معافی مانگ لوں گا۔ عادل زاروقطار رو رہا تھا۔ وہ تین سال سے ماں کو دیکھنے کے لئے ترس رہا تھا، دوست اس کے بے حد اصرار پر اسے اس کے گھر لے گیا مگر چھوٹے بھائیوں نے دروازہ نہیں کھولا۔ عادل گڑگڑاتا رہا کہ بس اپنے والدین سے ملنے کے بعد واپس چلا جائے گا مگر چھوٹے بھائیوں کو رحم نہ آیا جس کے بعد عادل کو پھر سے دورہ پڑا اور اس نے محلے کی درجنوں گاڑیاں پتھر مار کر توڑ ڈالیں۔ بھائیوں نے نفسیاتی اسپتال کے اہلکار بلوائے اور اسے وہاں داخل کرا دیا۔ پھر یہاں سے براہ راست حیدرآباد کے پاگل خانے بھجوا دیا، تاہم وہاں ڈاکٹروں سے گفتگو کے دوران عادل نے انہیں قائل کرلیا کہ وہ پاگل نہیں ہے اور بس اسے کبھی کبھی دورہ پڑتا ہے۔ ڈاکٹروں نے اسے چھوڑ دیا اور وہ دوبارہ کراچی آگیا جہاں اس کے دوستوں نے اسے پناہ دی مگر گھر والوں نے ملنے سے انکار کردیا۔ وہ تڑپتا رہا کہ بس ایک مرتبہ اپنی ماں سے ملے گا اور ہاتھ جوڑ کر معافی مانگے گا۔ وہ کہتا رہا کہ بس ایک مرتبہ ابو اُسے گلے لگا لیں مگر کوئی اس کی حالت پر رحم کرنے کو تیار نہ تھا۔ عادل کو پھر سے غصہ آنے لگا اور ایک دن پھر اسے دورہ پڑا۔ جس کے بعد پھر اسے نفسیاتی اسپتال بھجوا دیا گیا۔ اس وقت ایک دوسرا ڈاکٹر جو امریکا سے پڑھ کر پاکستان آیا تھا اس کے بھائیوں سے کہتا رہا کہ یہ پاگل نہیں ہے بس اسے محبت اور توجہ کی ضرورت ہے مگر کسی نے اس کی بات بھی نہ سنی۔
عادل اب پاگل خانے میں ہے۔ اس کا کوئی پُرسان حال نہیں۔
میں یہاں اِس سوال کے ساتھ یہ کہانی ختم کرنا چاہتا ہوں کہ عادل کی اس حالت کا ذمہ دار کون ہے؟
کیا اس کا باپ؟
بہن بھائی یا پورا معاشرہ؟
ایک گولڈ میڈلسٹ ہونہار اور ذہین نوجوان کیوں تباہ ہوا؟
ایسی کہانیاں ہمارے ہر طرف بکھری ہیں۔ عادل تو محض ایک علامت ہے۔

مطلقہ خبریں

غزل

غزل

غزل