سانس کی رفتار کو آساں بناتی ہے ہوا
زندگی بھر زندگی کے کام آتی ہے ہوا
ڈوبنے لگتی ہیں نبضیں گردشِ ایام کی
سُرخ آندھی بن کے جب آنکھیں دکھاتی ہے ہوا
پہلے دیتی ہے تمنا کے اُجالوں کو فروغ
پھر چراغِ آرزو کو آزماتی ہے ہوا
رنگ، خوشبو روشنی صوت و صدا مضراب و ساز
دشتِ امکاں میں مجھے سب کچھ دکھاتی ہے ہوا
کھیلتی ہے گیسوئے عنبر فشاں سے صبح و شام
وقت کی سانسوں کو خوشبو سے سجاتی ہے ہوا
کیا پر پرواز کو دیتی ہے وُسعت دیکھئے!
کیسے شاہیں کو بلندی پر اُڑاتی ہے ہوا
عارضی ہے عارضی ہے اے فریدیؔ عارضی
سچ تو یہ ہے کہ اسیر بے ثباتی ہے ہوا
اسلم فریدیؔ