کہیں آ نہ جائے زمانہ خزاں کا
تدبر کریں اس بہارِ جناں کا
جسے دیکھئے بدگماں ہے چمن سے
تحفظ کریں بلبلیں آشیاں کا
عروس البلاد معظم کی گلیاں
ہیں رنگیں مرقع لہو داستاں کا
تمدن ہے اپنا، نہ اپنی زباں ہے
فروزاں ہو کیسے ستارا جواں کا
تشدد، تنفر اور رسمِ جفا ہے
کھلے کیسے غنچہ نہالِ اماں کا
کہاں زندگی میں نمو ہوتی ہے گر
نہ احساس ہو اپنے سود و زیاں کا
لگائیں نئے پھول ہم اس چمن میں
نکالیں گلِ زرد اس گلستاں کا
سمٹ جائیں گے فاصلے سب دلوں کے
نکل جائے گر آدمی درمیاں کا
عطاؔ باطنی آگ میں جل چکا ہے
پتا ہے کسے اس کے سوزِ نہاں کا
ڈاکٹر عطا اللہ خان