Sunday, December 22, 2024
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

غزل

حصولِ منزل مقصد اگر بدلتے ہیں
قدم قدم پہ نئے ہم سفر بدلتے ہیں

یہ خوف بھی ہے کہ خانہ بدوش یا کچھ اور
پرندے عہدِ خزاں میں شجر بدلتے ہیں

انہیں ملے نہ ملے کچھ دعائیں دیتے ہیں
فقیر رکتے نہیں ہیں وہ در بدلتے ہیں

جواب جھوٹ کا ہے، انحراف ہے سچ سے
بڑے کمال سے وہ ہر خبر بدلتے ہیں

خیال خاطرِ احباب زندہ رکھا ہے
مرے خلوص سے پھر کیوں نظر بدلتے ہیں

نبھانا رشتوں کو شیشہ گری سے کم تو نہیں
کہ لوگ رسم دعا دیکھ کر بدلتے ہیں

مسافتوں کو طوالت ہو، دور ہو منزل
تو خواہشوں کے مسلسل بھنور بدلتے ہیں

سروشؔ بھول گئے تھے یہ شوقِ منزل میں
کہ کارواں ہی نہیں راہ بر بدلتے ہیں


نوید سروشؔ


مطلقہ خبریں

غزل

غزل

غزل