قرطاس پہ مانگے کا مقام ادبی کیا
خیرات سے بنتا ہے گداگر بھی غنی کیا
اعزاز سے چھپنے کو مشاہیر کی صف میں
کرتا ہے سخنور کوئی دریُوزہ گری کیا
ہنگام سحر، شب کے پرندوں کی نظر میں
سورج کی سرِبامِ اُفق جلوہ گری کیا
محروم بصارت کسی عامل کے عمل سے
شیشے میں اُترتی ہے بصیرت کی پَری کیا
وَاللہ! کہ یہ دین ہے اللہ کی ورنہ
فریاد سے نرگس کو ملی دیدہ وری کیا
پھولوں کو تو کرتی ہے عطا، حسن و لطافت
کانٹوں کے لئے باغ میں شبنم کی نمی کیا
آموزش نااہل نہیں کارِ فراست
گنبد پہ کوئی گیند ٹھہرتا ہے کبھی کیا
بے نقد ہنر، ہرزہ سرایانِ سخن کو
توقیر فقط ہرزہ سرائی سے ملی کیا
معدوم بھی ہوجائے اگر چھاؤں ہما کی
سائے میں کوئی بوم کے آتا ہے کبھی کیا
کاوشؔ، کسی شہرت کے بھکاری سے نہ پوچھو
ہوتی ہے زمانے میں قلندر منشی کیا
—————-
کاوشؔ عمر