گھڑی کی ہلکی سی ٹک ٹک گراں گزرتی ہے
اندھیری رات اکیلے کہاں گزرتی ہے
نکل کے خواب کی دنیا سے آ حقیقت میں
نہیں تو عمر مری رائگاں گزرتی ہے
اسی کے دل پہ اسے ہاتھ رکھ کے سمجھایا
کہ تیری چپ سے ہمارے یہاں گزرتی ہے
کہ جس پہ گزری نہ ہو وہ کہاں سمجھتا ہے
وہی سمجھتا ہے جس پر میاں گزرتی ہے
سنا ہے جب سے وہاں یار مشکلات میں ہے
ہماری جان پہ مشکل یہاں گزرتی ہے
کوئی تو روک لو جاتے ہوئے پرندوں کو
انہیں بتاؤ کہ اب تو خزاں گزرتی ہے
ہمارے کمرے نہیں ہیں کشادہ قبریں ہیں
کہ جن سے بَین کی صورت اذاں گزرتی ہے
وہ ایک شخص مرے گھر سے کیا گیا تحسینؔ
ہوا بھی صحن سے نوحہ کناں گزرتی ہے
یونس تحسینؔ