بستی میں مری جب بھی کوئی خواب گر آیا
کیوں مسجد و مندر کو وہ باغی نظر آیا
کیا تیر و تفنگ اپنوں کے لاتا وہ مقابل
جو سامنے دشمن کے بے تیغ و سپر آیا
اس بار بھی آیا نہ مرے فیصلہ حق میں
اس بار بھی میں بازی مگر جیت کر آیا
جو تجربے میرے تھے کہاں کام وہ آئے
ہر بار مگر ہاتھ نیا ہی ہنر آیا
انسان نے اقدار ترقی میں بھلا دیں
پاتال میں یہ سیڑھیاں چڑھتا اتر آیا
اس بار تو منطق نے اٹھائی ہے ہزیمت
اس بار تو کشتی کو بچانے بھنور آیا
دھندلائے تصور پہ بکھرنے لگی تنویر
جاذبؔ مرے رونے سے تو منظر نکھر آیا
اکرم جاذبؔ