Sunday, July 27, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

غزل

مناتا ہوں، مگر ویسے ہی بس روٹھے ہوئے سے ہیں
وہ شاید ترکِ الفت کی قسم کھائے ہوئے سے ہیں

تمہارے ہجر کے صدموں نے حالت یہ بنا دی ہے
نہ ہم سوئے ہوئے سے ہیں، نہ ہم جاگے ہوئے سے ہیں

بس اتنے سے سمجھ لو کوئے جاناں کے فضائل تم
گُلوں کے مثل ہی کانٹے وہاں مہکے ہوئے سے ہیں

اے میرے صبر زندہ باد، اے میری پیاس زندہ باد
جو پیمانے کہ خالی تھے، وہ سب چھلکے ہوئے سے ہیں

مِری پرواز پہلے جیسی رفعت کیوں نہیں پاتی
ذرا دیکھو تو کچھ پَر کیا مِرے کترے ہوئے سے ہیں

بظاہر اور بہ باطن میں یہی اِک فرق ہے صاحب
وہ میرے ساتھ میں تو ہیں، مگر بچھڑے ہوئے سے ہیں

تِرے دل میں بھی کیا چاہت کے نرم احساس جاگ اُٹھے
تِرے انداز آخر آج کیوں بدلے ہوئے سے ہیں

ضرور ان سے جُنوں بردوش دیوانے گئے ہوں گے
پہاڑوں اور چٹانوں پہ جو رستے ہوئے سے ہیں

ذکی طارق بارہ بنکوی، انڈیا

مطلقہ خبریں

غزل

غزل

غزل