ہونے لگی خلاؤں میں اب زندگی کی بات
یہ بیسویں صدی ہے کرو اِس صدی کی بات
برسوں کا اکتساب لئے لفظ لفظ میں
میرا وجود کرنے لگا شاعری کی بات
ٹوٹے ہوئے جو ربط تھے وہ ہوگئے بحال
صد شکر زندگی سے ہوئی زندگی کی بات
پھر ذہنی ارتقا ہے بلندی سے چارسُو
ہوتی ہے تیرگی میں یہاں روشنی کی بات
آئینہ دیکھنا ہی فقط جس کا کام ہو
وہ حُسن کیا کرے گا کبھی آگہی کی بات
تحریر ذہن و دل پہ عبارت اُسی کی ہے
لکھی ہوئی ہے روزِ ازل سے اُسی کی بات
دل ہے کہ ایک باغِ مسرت سے کم نہیں
خوشبو لئے ہوئے فریدیؔ خوشی کی بات
آئینہ دیکھنے کی بھی فرصت نہیں جسے
وہ آنکھ کیا کرے گی کسی آدمی کی بات
——————
اسلم فریدیؔ