Wednesday, July 30, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

غزل

رنگ آنکھوں سے بھی لگتا ہے نیا ہو جیسے
دل کی دھڑکن نے کوئی ساز بنا ہو جیسے

اس کی آنکھوں میں تھے پیغام ہزاروں لیکن
تیری خاطر تھا جو روشن وہ جدا ہو جیسے

اب تو بس یاد ہے اتنا ہی تعارف اس سے
کوئی رستے میں اچانک ہی ملا ہو جیسے

اس کی جھپکن میں مرا نام تھا میں چونک گیا
مجھ کو لگتا تھا کہ ہر شے نے سنا ہو جیسے

تم مرا حال سنو گے تو پریشاں ہوں گے
اجڑی قبروں سے دیا ٹوٹا ملا ہو جیسے

اس کا میں نام جو دہراؤں بھلا لگتا ہے
نام اس کا یہ فرشتوں نے رکھا ہو جیسے

اب اندھیروں میں بھی چلنے کا میں عادی ہوں شہابؔ
میرے اس دل میں محبت کا دیا ہو جیسے

شہاب اللہ شہابؔ

مطلقہ خبریں

غزل

غزل

غزل