ہم نے سوچا نہیں تاوان کا ہنستے ہنستے
سامنا کر لیا بہتان کا ہنستے ہنستے
سرفروشوں نے ستم گر کو پریشان کیا
راستہ پوچھ کے زندان کا ہنستے ہنستے
ہائے وہ عشق میں خود اپنا تماشہ کرنا
چاک کر لینا گریبان کا ہنستے ہنستے
صحبتِ ہمدمِ دیرینہ میں ہو جاتا ہے
بھیگنا گوشہئ مژگان کا ہنستے ہنستے
اور پھر کارِ محبت کی سمجھ آتے ہی
ہم نے سودا کیا نقصان کا ہنستے ہنستے
قہقہے موت کا پیغام بھی ہو سکتے ہیں
دم نکل سکتا ہے انسان کا ہنستے ہنستے
یار تو یار ہیں پوچھیں گے سبب ہم سے حسنؔ
ذکر کر بیٹھے ہیں ملتان کا ہنستے ہنستے
احتشام حسنؔ