خواہشِ دل ابھی نقاب میں ہے
میری تیری طَلب حجاب میں ہے
دل مِرا عالمِ شباب میں ہے
زندگی مستقل عذاب میں ہے
ایسا نشہ کہاں شراب میں ہے
بے خودی جو ترے شباب میں ہے
جاگنے ہی مجھے نہیں دیتی
ایسی لذت کسی کے خواب میں ہے
تازگی یہ تِرے تبسم کی
گلستاں کے ہر اک گلاب میں ہے
پیاس دل کی کہیں نہ بڑھ جائے
گفتگو تشنگی کے باب میں ہے
چڑھتا دریا ہے، بندمت باندھو
زندگی عالمِ شباب میں ہے
جو ہے گرمی تِری صحبت میں
وہ تمازت کب آفتاب میں ہے
دِل مِلا ہونا کہتے ہیں اس کو
میری خواہش تِرے خطاب میں ہے
یہ بھی ہے اک وصال کی صورت
تیری خوشبو سی جو گلاب میں ہے
جب سے دیکھا ہے آنکھ بھر کے مجھے
دل عجب ہی سے اضطراب میں ہے
تابہ کے بے لباس رکھو گے
زیست میری کہاں حجاب میں ہے
خواہشِ لذت وصال تری
مضطرب کس قدر شباب میں ہے
دل لئے جارہا ہے اس کی طرف
خود ہی جو آج تک سَراب میں ہے
خواہشِ وصل یہ تری آخر
صرف میرے ہی کیوں حساب میں ہے
دل کی میں بات مان لوں کیسے
دل مِرا راہ ناصواب میں ہے
یہ ہے دُنیا، شہود ہے کوئی
اور کوئی کہاں غیاب میں ہے
جانتا ہوں میں بے خبر تو نہیں
زندگی صورتِ حباب میں ہے
تیری ہر نا صواب خواہش بھی
میرے آئینہ صواب میں ہے
جس پہ مائل ہو میرا دل محسنؔ !
وہی ہی شَے اُس کے اِنتخاب میں ہے
———————————————
خیام العصر محسن اعظم محسنؔ ملیح آبادی
———————————————