پہلے تجھ کو خدا بنا دے گا
وقت پھر خاک میں ملا دے گا
رزق اور موت اس کے ہاتھ میں
تو مجھے کون سی سزا دے گا
لفظ زندہ ہیں میرے یا مردہ
وقت خود فیصلہ سنا دے گا
اُس کی سنّت پہ کیا کرے گا عمل
کھا کے پتھر کوئی دعا دے گا
ایک آنسو بھی میرے بچے کا
ذہن میں آگ سی لگا دے گا
شعر جو آنسوؤں سے لکھا ہے
سب کو اندر سے وہ رلا دے گا
بوڑھے ماں باپ کی دعائیں لے
یہ اثر باد شہہ بنا دے گا
انہی پتھر دلوں میں میرا شعر
درد میٹھا سا اک جگا دے گا
اک دیا بجھ گیا تو کیا عارفؔ
پھر نیا اک دیا جلا دے گا
—————-
عارفؔ شفیق