Saturday, June 21, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

غزلیں

 

دیکھ کر تجھ کو میں نے غزل لکھ دیا
چاند کا تجھ کو نعم البدل لکھ دیا

تیری آنکھوں کو چشم غزالہ کہا
تیرے چہرے کو کھلتا کنول لکھ دیا

دانت ایسے ہیں جیسے ہوں موتی جڑے
ہونٹ یاقوت کا ہے بدل لکھ دیا

تیری پتلی کمر کو میں کیا نام دوں
رینگتی ایک ہو ناگن کا بل لکھ دیا

دیکھ لے تجھ کو صابرؔ دوبارہ کبھی
چل کے آئے گا وہ سر کے بل لکھ دیا

  صابر حسین صابرؔ 

         ————————–

 

دل ایسا کسی تارِ محبت سے بندھا ہے
کھولے سے بھی کھلتا نہیں شدت سے بندھا ہے

وہ وعدہ قیامت کو بھی پورا نہیں ہو گا
وہ وعدۂ فردا جو قیامت سے بندھا ہے

ہر کوئی یہاں قید ہے اپنے ہی قفس میں
ہر کوئی یہاں اپنی ضرورت سے بندھا ہے

جب چاہتے ہیں آگ لگا لیتے ہیں خود کو
شعلہ سا کوئی اپنی طبیعت سے بندھا ہے

دو چار دنوں کی تو کہانی نہیں اپنی
دل عشق کی زنجیر سے مدت سے بندھا ہے

آئینے سے کیا پوچھیں ترے حُسن کی باتیں
آئینہ تو خود ورطۂ حیرت سے بندھا ہے

پھل پھول تو آئے نہیں شاخوں پہ ابھی تک
اک عمر سے دل نخلِ محبت سے بندھا ہے

کیونکر نہ مرے شعر میں تاثیر ہو باقیؔ
ہر مصرعِِ تر حسنِ روایت سے بندھا ہے

باقیؔ احمد پوری

 ————————–

 

خونِ ناحق یہ برملا کیا ہے
شہر بھی، دشتِ کربلا کیا ہے

کیوں زبردست ظلم والے ہیں
کشت و خوں کا یہ سلسلہ کیا ہے

کیوں ہیں تصویر بے کسی چہرے
دمبدم جورِ ناروا کیا ہے

لوگ کیوں وقف سوگواری ہیں
گریہ و شیون و بکا کیا ہے

اس شقاوت سے شب پرستوں کا
کون جانے کہ مدعا کیا ہے

راستے چپ ہیں، بام و در خاموش
کس سے پوچھوں کہ ماجرا کیا ہے

گھر سے باہر کوئی اگر جائے
اس کی قسمت میں جز قضا کیا ہے

رحم کھاتا نہیں کسی پہ کوئی
اس زمانے کو ہو گیا کیا ہے

ہو رہے ہیں جو بے گناہوں پر
ان مظالم کی انتہا کیا ہے

سب کو مولا امان میں رکھے
اور کاوشؔ مری دُعا کیا ہے

کاوشؔ عمر

 ————————–

 

کیوں اپنی روایات سے اُکتائے ہوئے ہو
اور غیر کی تہذیب کو اپنائے ہوئے ہو

کیا بات ہے کیوں ہنسنے پہ مجبور ہو اِتنا
چہرے سے تو لگتا ہے کہ گھبرائے ہوئے ہو

دل کو ابھی تنہائی کا احساس ہوا ہے
لگتا ہے کہ ملنے کے لئے آئے ہوئے ہو

چلنا ہے زمین پر تو چلو سَر کو جُھکا کر!
کیا بات ہے کس بات پہ اترائے ہوئے ہو

اِس طرح تو بڑھ جائے گی کچھ اور بھی دوری
کیوں بات نہ کرنے کی قسم کھائے ہوئے ہو

کیا بھیک محبت کی نہ حاصل ہوئی اب تک!
کیوں دامنِ دل آج بھی پھیلائے ہوئے ہو

دُنیا کے جھمیلوں سے نکل آؤ فریدیؔ
کیوں خود کو خرافات میں اُلجھائے ہوئے ہو

اسلم فریدیؔ 

 ————————–

مطلقہ خبریں

غزل

غزل

غزل