دیکھ کر تجھ کو میں نے غزل لکھ دیا
چاند کا تجھ کو نعم البدل لکھ دیا
تیری آنکھوں کو چشم غزالہ کہا
تیرے چہرے کو کھلتا کنول لکھ دیا
دانت ایسے ہیں جیسے ہوں موتی جڑے
ہونٹ یاقوت کا ہے بدل لکھ دیا
تیری پتلی کمر کو میں کیا نام دوں
رینگتی ایک ہو ناگن کا بل لکھ دیا
دیکھ لے تجھ کو صابرؔ دوبارہ کبھی
چل کے آئے گا وہ سر کے بل لکھ دیا
صابر حسین صابرؔ
————————–
دل ایسا کسی تارِ محبت سے بندھا ہے
کھولے سے بھی کھلتا نہیں شدت سے بندھا ہے
وہ وعدہ قیامت کو بھی پورا نہیں ہو گا
وہ وعدۂ فردا جو قیامت سے بندھا ہے
ہر کوئی یہاں قید ہے اپنے ہی قفس میں
ہر کوئی یہاں اپنی ضرورت سے بندھا ہے
جب چاہتے ہیں آگ لگا لیتے ہیں خود کو
شعلہ سا کوئی اپنی طبیعت سے بندھا ہے
دو چار دنوں کی تو کہانی نہیں اپنی
دل عشق کی زنجیر سے مدت سے بندھا ہے
آئینے سے کیا پوچھیں ترے حُسن کی باتیں
آئینہ تو خود ورطۂ حیرت سے بندھا ہے
پھل پھول تو آئے نہیں شاخوں پہ ابھی تک
اک عمر سے دل نخلِ محبت سے بندھا ہے
کیونکر نہ مرے شعر میں تاثیر ہو باقیؔ
ہر مصرعِِ تر حسنِ روایت سے بندھا ہے
باقیؔ احمد پوری
————————–
خونِ ناحق یہ برملا کیا ہے
شہر بھی، دشتِ کربلا کیا ہے
کیوں زبردست ظلم والے ہیں
کشت و خوں کا یہ سلسلہ کیا ہے
کیوں ہیں تصویر بے کسی چہرے
دمبدم جورِ ناروا کیا ہے
لوگ کیوں وقف سوگواری ہیں
گریہ و شیون و بکا کیا ہے
اس شقاوت سے شب پرستوں کا
کون جانے کہ مدعا کیا ہے
راستے چپ ہیں، بام و در خاموش
کس سے پوچھوں کہ ماجرا کیا ہے
گھر سے باہر کوئی اگر جائے
اس کی قسمت میں جز قضا کیا ہے
رحم کھاتا نہیں کسی پہ کوئی
اس زمانے کو ہو گیا کیا ہے
ہو رہے ہیں جو بے گناہوں پر
ان مظالم کی انتہا کیا ہے
سب کو مولا امان میں رکھے
اور کاوشؔ مری دُعا کیا ہے
کاوشؔ عمر
————————–
کیوں اپنی روایات سے اُکتائے ہوئے ہو
اور غیر کی تہذیب کو اپنائے ہوئے ہو
کیا بات ہے کیوں ہنسنے پہ مجبور ہو اِتنا
چہرے سے تو لگتا ہے کہ گھبرائے ہوئے ہو
دل کو ابھی تنہائی کا احساس ہوا ہے
لگتا ہے کہ ملنے کے لئے آئے ہوئے ہو
چلنا ہے زمین پر تو چلو سَر کو جُھکا کر!
کیا بات ہے کس بات پہ اترائے ہوئے ہو
اِس طرح تو بڑھ جائے گی کچھ اور بھی دوری
کیوں بات نہ کرنے کی قسم کھائے ہوئے ہو
کیا بھیک محبت کی نہ حاصل ہوئی اب تک!
کیوں دامنِ دل آج بھی پھیلائے ہوئے ہو
دُنیا کے جھمیلوں سے نکل آؤ فریدیؔ
کیوں خود کو خرافات میں اُلجھائے ہوئے ہو
اسلم فریدیؔ
————————–