———————-
کاوشؔ عمر
———————-
کسی گل رُخ سے تو گلشن میں کم اچھی نہیں لگتی
کسی کی گل رُخی، تیری قسم اچھی نہیں لگتی
کسی کے ہجر میں تشہیر غم اچھی نہیں لگتی
مجھے میری نگاہِ عشق نم اچھی نہیں لگتی
کسی کو رام کرنے کی تمنا کیا کرے کوئی
غزالانِ حسیں کی خوئے رَم اچھی نہیں لگتی
مری خوددار فطرت کو سخا والوں کی بستی میں
کسی سے کوئی اُمیدِ کرم اچھی نہیں لگتی
جو سچ پوچھو تو شہر آرزو کی دل رُباؤں میں
کوئی مخمورِ صہبائے ستم اچھی نہیں لگتی
عجب کیا ہے مرا محفل میں اس کو دیکھتے رہنا
کسے رنگینی رُوئے صنم اچھی نہیں لگتی
جبین شوق کی بابت مرے دل کا یہ کہنا ہے
غرورِ حسن کی چوکھٹ پر خم اچھی نہیں لگتی
مزہ دینے لگا ہے زندگی میں زخم دل ایسا
مسیحائی کی خواہش ایک دم اچھی نہیں لگتی
غبار آلودگانِ دشتِ غم ہیں خندہ زن کاوشؔ
کوئی پروردۂ ناز و نعم اچھی نہیں لگتی
———————-
عارفؔ شفیق
———————-
کراچی شہر میں طوفان کوئی آ نہیں سکتا
تری درگاہ سے آگے سمندر جا نہیں سکتا
اگر ہو صبر مسلک دل مرادوں سے بھی ہو خالی
تیرا یہ نفس تجھ کو پھر کبھی بہکا نہیں سکتا
بس اتنا یاد ہے سجدے میں گر کے رو رہا تھا میں
کیا تھا اس نے مجھ کو کیا عطا بتلا نہیں سکتا
عجب منظر دکھاتی ہے مرے وجدان کی دُنیا
کوئی پوچھے اگر مجھ سے تو میں سمجھا نہیں سکتا
ترا اعزاز ہے مہران وادی رہتی دُنیا تک
سخی شہباز سا کوئی قلندر آ نہیں سکتا
علیؓ مولا یہ کیسے جاہلوں میں گِھر گیا ہوں میں
جو کہتے ہیں کبھی سورج پلٹ کے آ نہیں سکتا
درود اُس کا پڑھو دل کی بہاریں لوٹ آئیں گی
کبھی موسم خزاں کا پھول کو مہکا نہیں سکتا
میں پھر کشکول لے کر آگیا عبداللہ شاہ غازی
خدا کے نام کی خیرات کیا پھر پا نہیں سکتا
اگر دل میں نہ ہو عشقِ محمدؐ تو یقیں کر لو
کوئی انسان بھی عارفؔ خدا کو پا نہیں سکتا