خونِ ناحق یہ برملا کیا ہے
شہر بھی، دشتِ کربلا کیا ہے
کیوں زبردست ظلم والے ہیں
کشت و خوں کا یہ سلسلہ کیا ہے
کیوں ہیں تصویر بے کسی چہرے
دمبدم جورِ ناروا کیا ہے
لوگ کیوں وقف سوگواری ہیں
گریہ و شیون و بکا کیا ہے
اس شقاوت سے شب پرستوں کا
کون جانے کہ مدعا کیا ہے
راستے چپ ہیں، بام و در خاموش
کس سے پوچھوں کہ ماجرا کیا ہے
گھر سے باہر کوئی اگر جائے
اس کی قسمت میں جز قضا کیا ہے
رحم کھاتا نہیں کسی پہ کوئی
اس زمانے کو ہو گیا کیا ہے
ہو رہے ہیں جو بے گناہوں پر
ان مظالم کی انتہا کیا ہے
سب کو مولا امان میں رکھے
اور کاوشؔ مری دُعا کیا ہے
——————-
کاوشؔ عمر
——————-
میں نے ہر ایک شکل میں دیکھی ہے زندگی
روتی ہے زندگی کہیں ہنستی ہے زندگی
اس شہر سنگ و خشت میں محسوس یہ ہوا
آئینہ گَر کی آئینہ سازی ہے زندگی
باہر فصیل جسم سے جاتی تو ہے ضرور
لیکن حصارِ ذات کی عادی ہے زندگی
ہر آن ارتقا کا تصور ہے ساتھ ساتھ
ہر شوق نو بہ نو سے بدلتی ہے زندگی
یہ تو بطورِ قرض امانت کسی کی ہے
اپنی نہیں ہے بلکہ پرائی ہے زندگی
اس کو ہوا کے رُخ پہ بھروسہ نہ اعتبار
دریا میں ایک ڈولتی کشتی ہے زندگی
گھائل ہوئی ہے وقت کی ٹھوکر سے بارہا
پھر بھی مُسرتوں کی کہانی ہے زندگی
عمر دوام کیسے فریدیؔ نصیب ہو
دنیائے بے ثبات میں گزری ہے زندگی
——————-
اسلم فریدیؔ
——————-