اپنی آواز کا جادو نہ جگا رہنے دے
یہ ترنم، یہ تغزل، یہ غنا رہنے دے
خلوتِ شوق میں آ، کُھل کے زُلیخائی کر
یہ اشارہ، یہ کنایہ، یہ ادا رہنے دے
میری سرشار اُمنگوں کے تقاضوں کو سمجھ
یہ تامُّل، یہ تذبذُّب، یہ حیا رہنے دے
تیرے انکار کا مفہوم سمجھتا ہوں میں
یہ تصنّع، یہ بناوٹ، یہ ریا رہنے دے
غیرتِ حسن کی توہین ہے تشہیرِ جمال
یہ تجلّی، یہ تبّرج، یہ جِلا رہنے دے
آئینہ ٹوٹ کے بکھرا تو غضب ڈھائے گا
یہ تکبر، یہ تفاخر، یہ اَنا رہنے دے
مجھ کو ہر حال میں جینے کا ہنر آتا ہے
یہ محبت، یہ عنایت، یہ وفا رہنے دے
میں نہیں مفت کا احسان اٹھانے والا
یہ تسلّی، یہ تشفّی، یہ وِلا، رہنے دے
سانس کی آس نہ ہو جب تو مسیحائی کیا
یہ کڑے گھونٹ، یہ دارو، یہ دوا رہنے دے
تیرے کوچے سے ترا کاوشؔ خونبار چلا
اب یہ سیندور، یہ غازہ، یہ حنا رہنے
——————-
کاوشؔ عمر
——————-
اب تو سوال کرنے لگے بار بار لوگ
وہ کون ہے کہ جس پہ کریں اعتبار لوگ
مرضی سے اپنی کوئی بھی کرتے نہیں ہیں کام
کیوں ہوگئے ہیں بے حِس و بے اختیار لوگ
میں زندگی کی تلخ حقیقت میں رہ گیا
لیکن خوشی سے ہوتے رہے ہمکنار لوگ
لوٹے کبھی نہ وادئ حُسن و جمال سے
خوابِ حسین میں ڈوب گئے بے شمار لوگ
رنگِ طلسم گردشِ دوراں تو دیکھئے!
پہنے ہوئے ہیں جسم پہ گردوغبار لوگ
گفت و شنید سے بھی چُراتے تھے جی بہت
وہ مصلحت پسند و کفایت شعار لوگ
اُترا فریدیؔ جانے کہاں جا کے ماہتاب
تیری طرح سے کرتے رہے انتظار لوگ
——————-
اسلم فریدیؔ
——————-