Saturday, July 26, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

غزلیں

ظلمت شب ابھی راہوں میں اگر باقی ہے
روشنی کو مری آہوں میں شرر باقی ہے

راہ دشوار سے دشوار بھی کٹ جائے گی
ہاں! مسافر میں اگر عزم سفر باقی ہے

عشق ہوتا تو ہے عشاق کو اب بھی لیکن
دل وہ باقی ہے نہ سینے میں جگر باقی ہے

درد و غم کس سے کہیں زخم دکھائیں کس کو
اہل دل ہے نہ کوئی اہل نظر باقی ہے

بعد مرنے کے مری خاک کُریدی کیوں کر؟
اے ستم گر کوئی کیا اور کسر باقی ہے

زندگی جہد مسلسل کے سوا کیا ہے انیسؔ
تادمِ مرگ ہمارا یہ سفر باقی ہے

———————-
ڈاکٹر انیس الحق انیسؔ
———————-

فروغ بخش کے ہم عشق کے فسانے کو
جنوں کی راہ میں لے آئیں گے زمانے کو

یہ کیا غضب کہ سر راہ لٹ گیا میں بھی
نہ میری چیخ پر آیا کوئی بچانے کو

مجھے ہے رشک ترے دل ربا تبسم پر
مرے تو ہونٹ ترستے ہیں مسکرانے کو

نہ برق کی ہے ضرورت نہ آتش گل کی
ترا یہ غم ہی بہت ہے مجھے جلانے کو

یہ میری اشک فشانی ہے ان کے دل کی خوشی
نہ جانے کس لئے آتے ہیں وہ منانے کو

خیال سے ہی مرے خواب کی ہوئی تشکیل
قفس میں دیکھ رہا ہوں میں آشیانے کو

بہت طویل ہے رودادِ زندگی میری
سنو گے تم بھی کہاں تک مرے فسانے کو

یہی رہا جو تمہارے گریز کا عالم
نشاطؔ آئے نہ شاید غزل سنانے کو
———————-
نشاطؔ غوری

———————-

مطلقہ خبریں

غزل

غزل

غزل