Monday, June 9, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

غزلیں

کس کے آنے کی تمہید ہے فصل گل، باغ کا ہر نظارہ صہبا اثر
کیف آگیں فضا، پھول رنگیں قبا، گنگناتی صبا، مسکراتی سحر

حسن گرم فسوں، عشق رہن جنوں، حسن عشرت بدل، عشق شوریدہ سر
موجِ رامشگری انجمن انجمن، رقص دیوانگی رہگزر، رہگزر

کینہ پرور زمیں، فتنہ گر آسماں، دل کا دشمن جہاں، دل امنگوں کا گھر
نوبہ نو خواہشیں، ضوبہ ضو حسرتیں، آرزوئیں بہت، زندگی مختصر

میں نے مانا کہ اُس پیکر ناز سے، آج موقع ہے عرضِ طلب کا مگر
اے دلِ مبتلا، ایسی عجلت بھی کیا، رُک ذرا، رک ذرا، کچھ ٹھہر کچھ ٹھہر

کالی کالی گھٹا، بہکی بہکی ہوا، یہ نرالا سماں عیش امروز کا
ساقیا جام لا، مطر بہ ساز اٹھا، دوش کا غم نہ کھا، فکر فروا نہ کر

میکشو! پھر کہاں فرصت میکشی، جام میں گھول دو تلخیاں دہر کی
پی، پلا لو کہ ہے موسم گل ابھی، آنے والے حوادث کی کس کو خبر

وقت کی ساعتیں ہیں بجھی زہر میں، زندگی ہے رواں درد کی لہر میں
اب وہ شاموں کی رونق کہاں شہر میں، اب کہاں کوئی چہرہ کسی بام پر

شوق آتش بجاں بے غم ایں و آں، ہے بہ عزم جواں، سوئے منزل رواں
مشتعل آندھیاں، مضطرب بجلیاں، قبر سی تیرگی، راستہ پُرخطر

یوں تو ہیں انجمن انجمن سینکڑوں، خوش بیاں، نکتہ داں، نغز گو، ذی سخن
پر حقیقت ہے کوئی تَعلَّی نہیں، ہے سبھوں سے جدا طرزِ کاوشؔ عمر

کاوشؔ عمر

————————————————-


نہ وہ فکر ہے نہ وہ شاعری، نہ قلم میں وہ تب و تاب ہے
میں لکھوں تو کیسے غزل لکھوں، مرا ذہن زیرِعتاب ہے

جو چمن میں بادِخزاں چلی، وہ چمن کا حُسن بھی لے گئی
نہ بہار مثلِ بہار ہے، نہ گلاب مثلِ گلاب ہے

جو نقاب رُخ سے جُدا ہوئی، نگۂ حریص بھی وا ہوئی
مرے دل کو جس کی تلاش تھی، یہ وہی تو جانِ شباب ہے

جو نہ سجدہ ہائے خلوص ہو، اُسے سجدہ کہنا ہے کب رَوا
کہ خلوص ہی تو نماز ہے، کہ خلوص ہی میں ثواب ہے

وہی انتظار کے روز و شب، وہی جستجو ہے وہی تھکن
تری زندگی بھی نصاب ہے، مری زندگی بھی نصاب ہے

مرا ہمنوا مرا ہمسفر، سرراہ ملتا تو ہے مگر!
نہ سلام ہے نہ کلام ہے، نہ سوال ہے نہ جواب ہے

یہاں ایک لمحہ بھی جبر سے کسی طور کم نہیں دوستو!
کہ قدم قدم پہ صلیب ہے، کہ قدم قدم پہ عذاب ہے

نئی جنگ کی نئی آگ پھر کسی پل کہیں نہ بھڑک اٹھے
وہ اذانِ امن تو دے کوئی، جو فریدیؔ کارِثواب ہے

اسلم فریدیؔ 

————————————————-


 

یہ زخم، یہ خوں اور یہ اشکوں کی لری ہے
یہ عشق کا تحفہ ہے یہی دیدہ وری ہے

یہ کم نگہی ہے نہ کوئی درد سری ہے
یہ عشق کی دُنیا ہے تجسس سے بھری ہے

یہ دل ہے یہاں درد کی رہتی ہیں بہاریں
یہ زخم کی کھیتی ہے ہر اک رُت میں ہری ہے

یہ میرا نہیں ناقد الفت کا ہے کہنا
شامل مری آواز میں آواز تری ہے

ہر دور میں انسان رہا جنگ و جدل میں
یہ بات تو تاریخ کے صفحوں میں لکھی ہے

اس بات کو تسلیم کرو، لہجے میں اس کے
تلخی تو بہت زیادہ ہے پر بات کھری ہے

چڑیوں کی سی آوارگی ہے سب کا مقدر
یہ خطہ الفت ہے یہاں دربدری ہے

رقصاں ہے مرے دل پہ غم یار کی برکھا
کچھ یونہی نہیں آنکھ میں، دامن میں تری ہے

اک آرزو ہے بن کے خلش رہتی ہے دل میں
دیوی ہے کوئی اور نہ وہ لال پری ہے

شفیق احمد شفیقؔ

————————————————-


شکوۂ غم جب زباں پر آگئے
بندہ پرور آپ کیوں گھبرا گئے

وہ جو اپنی معرفت میں آگئے
وہ سراغِ زندگانی پا گئے

بے قراری بڑھ گئی کچھ اس قدر
بے حجابانہ مقابل آگئے

وہ جو خود تھے کبھی شیشہ تراش
آئینوں پر سنگ وہ برسا گئے

چاند کا جب ذکر میں کرنے لگا
وہ یکایک جانے کیوں شرما گئے

کس قدر ظالم تھے وہ حق ناشناس
کعبۂ دل کو ہمارے ڈھا گئے

جو حریم ناز میں پلتے رہے
پتھروں کی زد میں وہ بھی آگئے

جو خدا کی راہ میں قرباں ہوئے
وہ حیاتِ زندگانی پا گئے

جسم سے تھا روح کا جب رابطہ
آخری ہچکی میں دھوکا کھا گئے

رضیؔ عظیم آبادی

————————————————-


ڈوب کر دیکھ اپنے پیکر میں

کیا نہیں ذات کے سمندر میں

اَن گنت خواہشوں کے منظر میں

تیرا سودا بھی ہے مرے سر میں

جیسی بّرش ہے ہر گل تر میں

کاٹ ایسی کہاں ہے خنجر میں

بچے دکھ میں ہیں مبتلا گھر میں

اُف یہ مجبوری ہم ہیں دفتر میں

ایک چہرے میں کتنے چہرے ہیں

کتنے پیکر ہیں ایک پیکر میں

کس سمندر کی بات کرتے ہو

دشت بھی ہیں اسی سمندر میں

اور کسے انقلاب کہتے ہیں

سنگ ہے دستِ آئینہ گر میں

آپ قیمت لگائیں تو سب کچھ

ورنہ کچھ بھی نہیں ہے گوہر میں

اے مقّدر کے ماننے والو!

بے عمل کچھ نہیں مقّدر میں

ایسے گھر کی بھی جستجو کرتے

چاندنی تک نہیں ہے جس گھر میں

کسی گھر میں مگر اندھیرا رہا

دیے جلتے رہے برابر میں

ان گنت ماہ و سال ہیں بے تاب

پیار کے بے کراں سمندر میں

کاش! محسوس تم کو ہو جاتا

اک گداگر ہے، ہر تو نگر میں

دلِ بیدار، وا کرو اپنا

سارے منظر ہیں ایک منظر میں

پیار سب کو کہاں میّسر ہے

دل کی دولت نہیں ہے اکثر میں

کاش! دل بھی اسی طرح ہوتے

روشنی ہو رہی ہے، گھر گھر میں

ہاں! ہمیں سادہ لوح دیوانے

نازکی دیکھتے ہیں پتھر میں

خیر بھی اپنا منہ نہ موڑ سکا

کتنی دلچسپیاں ہیں اس شر میں

غم ہے دیوانگی، اگر محسنؔ !

ایسی دیوانگی ہے ہر سر میں

محسنؔ اعظم! یہ دل ہے ایسا دیا

جلتا رہتا ہے بادِ صرصر میں

خیام العصر محسن اعظم محسنؔ ملیح آبادی

————————————————-

مطلقہ خبریں

غزل

غزل

غزل