شہنائی کی گونج میں اک سکوں کی جھنکار اٹھی
تیرے گھر سے میرے گھر تک فرقت کی دیوار اٹھی
پیاس زمیں کی بجھ نہ سکی اور کھیت کی رونق بڑھ نہ سکی
اپنی گود میں پانی لے کر یوں تو گھٹا سو بار اٹھی
جنگل کے قانون میں رہ کر کس سے کریں انصاف طلب
پیارے سے اک باپ کی بیٹی آج سر بازار اٹھی
سوتے سوتے نیند بھی ٹوٹی سپنے بھی پھر ٹوٹ گئے
یادوں کے صحرا میں تیرے جسم کی جب مہکار اٹھی
تجھ سے مل کر مایوسی کا دشت اٹھا کے لایا ہوں
تجھ سے ملنے کی خواہش تو دل میں مرے بیکار اٹھی
—————————-
رونقؔ حیات
—————————-
کسی کے گھر میں میسر نہیں کہ شب میں جلے
دیئے بہت سے حویلی تری عقب میں جلے
کہاں کسی کی تمنا ہے دل جلے اس کا
میں چاہتا ہوں مرا دل تری طلب میں جلے
کسی کے گھر میں ہو کر اک دیا محبت کا
چراغ اس کی وفا کا نسب نسب میں جلے
زمانے بھر میں بچے گی کہیں نہ تاریکی
ہر ایک شخص اجالوں کی گر طلب میں جلے
تم ایک رات جلے ہو ہماری فرقت میں
تمام عمر تو ہم بھی جنونِ شب میں جلے
کسی بشر کو کوئی بے وفا نہ کہہ پائے
خدا کرے کہ وفا کا چراغ سب میں جلے
کسی کو اور بھی وارثؔ تلاش کر لینا
جو تیرے بعد بھی تیری طرح ادب میں جلے
—————————-
ڈاکٹر وارثؔ انصاری
—————————-