Tuesday, July 22, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

غزلیں

سب کے چہرے پہ چہرہ سجا ہے
راز کھلتا نہیں، کون، کیا ہے

اس میں سُوز جدائی بھرا ہے
جانگسل، بانسری کی صدا ہے

اصل سے اپنی، جو بھی جدا ہے
وصل کے روز و شب ڈھونڈتا ہے

سچ زمانے میں جس نے کہا ہے
دار، اس کا مقدر بنا ہے

وہ پرندہ جو شیریں نوا ہے
اس کی قسمت میں پھندا لکھا ہے

آدمیت سے عاری ہوا ہے
آدمی، آدمی، کب رہا ہے

فصل گل میں یہ کیا ماجرا ہے
کوئی بلبل نہ بادِ صبا ہے

عازۂ رُخ، نہ رنگ حنا ہے
حسن والوں کی زینت حیا ہے

————————-
کاوشؔ عمر
————————-

یہ میری رائے ہے وہ آدمی زندہ نہیں ہوتا
کہ سوزِ غم ملے اور پھر بھی تابندہ نہیں ہوتا

مرا ذوقِ خطا کاری اب اس منزل پہ لے آیا
خطا کرتا ہوں اور پھر اس پہ شرمندہ نہیں ہوتا

وہی خورشید بن کر میرے اندر جگمگاتا ہے
وہ تار جو مری پلکوں پر تابندہ نہیں ہوتا

جہاں والو! تمہیں یہ بات کن لفظوں میں سمجھاؤں
کہ ہر اک چلتا پھرتا آدمی زندہ نہیں ہوتا

بہارؔ ! اہلِ جہاں مجھ کو کبھی کا دفن کردیتے
مرے سینے میں میرا دل اگر زندہ نہیں ہوتا

————————-
بہارؔ شاہجہانپوری

————————-

مطلقہ خبریں

غزل

غزل

غزل