Monday, July 21, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

غزلیں

ہو جائے اجالا ہی اجالا مرے آگے
پردے سے کسی روز نکل آ مرے آگے

یہ حسن طلب ہے کہ یہ دھوکا ہے نظر کا
دریا کی طرح بہتا ہے صحرا مرے آگے

میں دیکھ رہا تھا کہیں پھولوں کی نمائش
لے آیا کوئی تیرا سراپا مرے آگے

رستے میں کھڑے ہیں تری تصویر اٹھائے
آئینہ صفت نقشِ کفِ پا مرے آگے

میں تیرے تعاقب میں کہاں تک چلا آیا
کعبہ مرے پیچھے نہ کلیسا مرے آگے

مجبور بشر ہوں بھلا مختار کہاں ہوں
رازق نہ سمجھ ہاتھ نہ پھیلا مرے آگے

وہ رات کی ظلمت ہو کے ہو دن کا اجالا
رہتا ہے ترا چاند سا چہرہ مرے آگے

فرقت کے اندھیروں کو سمٹنا ہی پڑے گا
روشن ہے ترا وعدۂ فردا مرے آگے

سائے کی طرح ساتھ رہی ہے سدا نصرتؔ
دنیا مرے پیچھے کبھی دنیا مرے آگے

———————
نصرتؔ صدیقی
———————

کب تک اپنوں سے روٹھو گے
ہم سے آخر کب بولو گے

دستک بھی دم توڑ رہی ہے
بند دریچے کب کھولو گے

گھر گھر تم آتے جاتے ہو
میرے گھر میں کب اترو گے

رات کا سورج ڈوب رہا ہے
دن کے چندا، کب ابھرو گے

تتلی نے رنگت بدلی ہے
پھولو! رنگت کب بدلو گے

ایک کہانی یاد آئے گی
پھول اور تتلی جب دیکھو گے

حسرت کی تصویر ملے گی
میری طرف تم جب دیکھو گے

لاکھ سمیٹو خود کو اکرمؔ
ایک نہ اک دن تم بکھرو گے

———————
محمد اکرام اکرمؔ 

———————

مطلقہ خبریں

غزل

غزل

غزل