تیرے جلوے ہیں موج زن ہر سو
ذرے، ذرے میں ہے ترا جادو
باغ ہستی میں جتنی اشیاء ہیں
کب کسی شئے میں ہے تری خوبو
تجھ کو دیکھیں تو ہوش کھو بیٹھیں
یہ پری چہرگانِ سنبل مُو
تیرے جلوؤں کی تابناکی سے
دم بخود ہے مری زبانِ غلو
تیری توصیف کیا کرے کوئی
پیکرِ حسن بے مثال ہے تو
تیرے دیدار حسن سے پہلے
شوق کو چاہئے نظر کا وضو
تیری آنکھوں کی یاد میگوں سے
مست رہتا ہوں بے خمارِ سُبو
چاند کو شب میں دیکھ کر تنہا
چین آتا نہیں، کسی پہلو
شمع نے یہ کہا پتنگوں سے
عشق پاتا ہے بعد مرگ علو
کوئی پوچھے تو کیا کہوں کاوشؔ
میری آنکھوں میں کیوں ہے دل کا لہو
—————–
کاوشؔ عمر
—————–
یہ نہ ہو، ناخدا طوفاں سے بچا لے مجھ کو
کردے پھر شورشِ ساحل کے حوالے مجھ کو
اُس بُرے وقت سے اللہ بچا لے مجھ کو
جب ترس کھانے لگیں دیکھنے والے مجھ کو
جب کیا موج نے طوفاں کے حوالے مجھ کو
غرق ساحل پہ ہوئے دیکھنے والے مجھ کو
میں تو خوشبو ہوں مقدر ہے مِرا اُڑ جانا
یہ سمجھ کر جو بساتا ہے بسا لے مجھ کو
میں تو ہوں گر کے بھی اک سکۂ رائج کی طرح
جس کی بھی آنکھ پڑے جھک کے اٹھا لے مجھ کو
ریزہ چیں تھے جو مرے خوانِ کرم کے کل تک
آج دیتے ہیں وہ گِن گِن کے نوالے مجھ کو
میں وہ قاتل ہوں، کہ خود رکھ کے گلے پر خنجر
خود سے فریاد کناں ہوں، کہ بچا لے مجھ کو
میں بھی اس دور میں یوسف کی طرح چاہ میں ہوں
اب کوئی قافلہ گزرے تو نِکالے مجھ کو
میں شب تار کا شکوہ کروں کس منہ سے بہارؔ !
کب سکوں بخش ہوئے دن کے اُجالے مجھ کو
—————–
بہارؔ شاہجہانپوری
—————–