وصل کی شب میں کیا نہیں ہوتا
پر، کسی کو پتا نہیں ہوتا
آنکھوں آنکھوں میں بات ہوتی ہے
لب رہینِ صدا نہیں ہوتا
باتوں باتوں میں رات کٹتی ہے
کوئی پل بے مزا نہیں ہوتا
حسن کی شانِ دلنوازی سے
منفعل، مدّعا نہیں ہوتا
بے حجابی فسوں جگاتی ہے
کوئی وقفِ حیا نہیں ہوتا
دو دلوں کی ترنگ ہوتی ہے
غم کسی بات کا نہیں ہوتا
اس سے بہتر حیات میں کاوشؔ
پھر کوئی رَت جگا نہیں ہوتا
—————————–
کاوشؔ عمر
—————————–
سوال مجھ سے کرو، میں جواب رکھتا ہوں
میں اپنے حُسنِ عمل کا حساب رکھتا ہوں
افق کے پار بھی جاری ہے، روشنی کا سفر
جہاں کہیں بھی رہوں، آفتاب رکھتا ہوں
ہوا کے رخ پہ جلاؤں گا خواہشوں کے چراغ
بہ شوقِ چشمِ تمنا یہ خواب رکھتا ہوں
شعور و فکر ہے انساں کی فطرتاً آزاد
میں حرف حرف میں اک انقلاب رکھتا ہوں
تھکن سے چُور ہوں، مجھ سے نہ پوچھ میرا حال
نہ جانے کتنے سفر کا عذاب رکھتا ہوں
بتاؤں کیا تمہیں تخلیق فن کی سچائی
قلم ہمیشہ سرِ احتساب رکھتا ہوں
فریدیؔ جبر کی ظلمت زدہ فضاؤں میں
خلوص و مہر کی روشن کتاب رکھتا ہوں
—————————–
اسلم فریدیؔ
—————————–