رہتا بھنور میں کیوں ہے سفینہ تمام عمر
یہ کیسا امتحان ہے مرنے کو جی رہے
اور زہر زندگی کا ہے پینا تمام عمر
ہر بار ہی ستم کے لئے ہم چُنے گئے
سہنا بھی ظلم اور ہے جینا تمام عمر
ہم کو تو یوں ہی مرضی کا مالک بنا دیا
اور اختیار آپ نے چھینا تمام عمر
اک شور و شر ہے مال و متاع کے حصول کا
کرتے ہیں جمع کیوں یہ خزینہ تمام عمر
انداز نت نئے بھی کئے اختیار پر
کیوں بات میری کوئی بنی نہ تمام عمر
جو بات ہے وہ منہ پہ کرو برملا عظیمؔ
یہ کیا کہ دل میں رکھتے ہو کینہ تمام عمر
—————————–
ابن عظیمؔ فاطمی
—————————–
ہر سانس کو جب وقت کی رفتا کہا جائے
پھر زیست کو گرتی ہوئی دیوار کہا جائے
اتنی تو ہم آہنگی فطرت ہو کم از کم
گفتار کو آئینہ و کردار کہا جائے
ہر آنکھ پس پردہ نہیں دیکھتی یارو!
ہر آنکھ کو کیوں دیدۂ بیدار کہا جائے
کیا آپ بھی ہیں آئینہ دار غم ہستی
کیا آپ کو بھی صاحب اسرار کہا جائے
جو لوگ دکھاتے ہیں دلِ غم زدہ دائم
وہ چاہتے ہیں ہم کو بھی دلدار کہا جائے
کس کس کی نگاہوں کی خریدے کوئی نفرت
کس کس سے یہاں حالِ دلِ زار کہا جائے
انسان رضیؔ جبر مشیت میں گھرا ہے
انسان کو پھر کس لئے مختار کہا جائے
—————————–
رضیؔ عظیم آبادی
—————————–