Wednesday, July 16, 2025
- Advertisment -
Google search engine

حالیہ پوسٹس

غزلیں

پلکوں پہ ہیں سلسلے گہر کے
ڈوبے ہوئے خون میں جگر کے

خنداں یہ گلاب شاخ پر کے
رہ جائیں گے ایک دن بکھر کے

اندر سے جو رہ گیا، بکھر کے
اُوپر سے وہ کیا کرے سنور کے

تھی جس سے بہار آئینے کی
وہ رنگ بکھر گیا، نکھر کے

بارش ہرے نہ ہوسکیں گے
وہ برگ جو زرد ہیں شجر کے

ہم کس کی وفا پہ، کیا بتائیں
مارے گئے، اعتبار کرکے

جب چین ملا نہ زندگی میں
پائیں گے سکون خاک مر کے

لٹ جائے گی آبرو اَنا کی
محفل میں نہ جاؤ اہلِ زر کے

جز داغ، کسی بھی ذی ہنر کو
ملتا ہے صلے میں کیا ہنر کے

ملتے نہیں اب کسی سے کاوشؔ
گوشے میں پڑے ہیں اپنے گھر کے

—————-

کاوشؔ عمر

—————-

 

لاکھ سورج سر پہ ہو، پر تم یہ ٹھنڈک دیکھنا
اپنے ہونٹوں پر مرے ہونٹوں کی دستک دیکھنا

چاہتوں کے شہر میں دل کے در و دیوار پر
چارسُو لپٹی ہوئی فرقت کی دیمک دیکھنا

تم نئی خوشیاں اُٹھائے میرے آنگن میں کبھی
بجھ گئے ہیں جو ہوائے غم سے دیپک دیکھنا

اپنی آنکھوں میں لگا کر سرمۂ دیوانگی
میں نظر آؤں جہاں تک تم وہاں تک دیکھنا

دیکھنے کی تاب ہو تم کو تو پھر رونقؔ حیات
پاؤں سے لے کر کسی دن اُس کو سر تک دیکھنا

—————-

رونقؔ حیات

—————-

 

مطلقہ خبریں

غزل

غزل

غزل