سعیدہ غنی
کھانے پینے کی تمام وہ اشیا ہماری غذا یا خوراک کہلا سکتی ہیں جو ہماری زندگی کی بحالی اور جسم کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کی اہلیت رکھتی ہیں۔ مثلاً بھوک کی جبلت کو طمانیت عطا کر سکتی اور پیٹ بھرنے کی اہلیت رکھتی ہوں، نشوونما کرنے اور صحت و تندرستی برقرار رکھنے کے لئے بیماریوں سے تحفظ کرنے کی ضامن ہوسکتی ہوں۔ خوراک میں موجود تمام خصوصیات اس کی غذائیت کہلاتی ہیں۔ اس طرح ہماری خوراک میں موجود یہ تمام اشیا خوردنی مثلاً اناج، سبزیاں، پھل، دودھ، گوشت، انڈے اور ان سے بنی اشیا شامل ہوتی ہیں۔ اشیائے خوردنی یا خوراک میں موجود ایسے تمام کیمیائی اجزا یا جوہر ’’غذائی اجزا‘‘ کہلاتے ہیں جو خوراک کو غذائیت بخشتے ہیں اور خوراک میں جسمانی تقاضے پورے کرنے کی خوبیاں پیدا کرتے ہیں۔ ان کی عدم موجودگی میں خوراک سوائے معدہ بھرنے کے کوئی قابل قدر حیثیت نہیں رکھتی۔ حقیقت یہ ہے کہ ہماری خوراک کی بنیادی اہمیت ہی انہیں غذائی اجزا کی وجہ سے ہے کیونکہ خوراک جسم میں جتنے بھی کام انجام دیتی ہے وہ سب انہی غذائی اجزا کے مرہون منت ہوتے ہیں۔ ان اجزا میں پروٹین، کاربوہائیڈریٹ، روغن، حیاتین اور نمکیات شامل ہیں۔ اس طرح غذا، غذائی اجزا اور غذائیت کو کسی لحاظ سے بھی ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ خوراک کا پہلا اور فوری کام تو یہ ہے یہ پیٹ بھرتی ہے اور بھوک مٹاتی ہے۔ جسم کے خلیات اور بافتوں کی تعمیر اور نشوونما کرتی ہے۔ قوت اور حرارت مہیا کرکے جسم کو تمام ارادی اور غیرارادی افعال انجام دینے کے قابل بناتی ہے۔ جسم کے سارے اندرونی اور بیرونی نظاموں کو باقاعدہ اور برقرار رکھتی ہے۔ قوتِ مدافعت پیدا کرکے بیماریوں سے جسم کو تحفظ فراہم کرتی ہے۔ معاشرتی تعلقات اور میل جول بڑھانے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ صحت اور زندگی کی بقا کے لئے غذائی اجزا بنیادی کردار ادا کرتے ہیں، اس لئے انہیں ’’ضامن حیات‘‘ یا ’’ضامن صحت‘‘ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ غذائی اجزا میں پروٹین، کاربوہائیڈریٹس، روغنیات، حیاتین اور نمکیات شامل ہیں۔ ان اجزا میں سے کسی ایک جزو کی کمی سے بھی صحت متاثر ہونے لگتی ہے اور انسان کسی نہ کسی طرح بیماری کا شکار ہوجاتا ہے۔ غذائی اجزا جسم میں مختلف کام انجام دیتے ہیں تاہم ہر غذائی جزو کے ذمہ الگ الگ کام ہوتے ہیں۔ لیکن ’’خودمختار‘‘ ہونے کے باوجود کوئی جزو تن تنہا اپنا کام پورا نہیں کرسکتا بلکہ اسے خاص اپنے کام کی تکمیل کے لئے بھی دوسرے غذائی اجزا کا تعاون درکار ہوتا ہے۔ اس لئے اگر ہماری خوراک میں ان غذائی اجزا میں سے کوئی ایک جزو بھی کم ہوجائے تو نہ صرف اس کے اپنے مخصوص افعال میں بے قاعدگی پیدا ہوجائے گی بلکہ اس کا اثر دوسرے اجزا کے افعال پر بھی پڑے گا، جس سے کئی بیماریاں لاحق ہوسکتی ہیں۔ اس لئے ہمیشہ خوراک ایسی ہونی چاہئے جس میں تمام تر غذائی اجزا کی مناسب مقدار موجود ہو۔ ایسی ضامن صحت غذا کو ’’متوازن خوراک‘‘ کہتے ہیں۔ ہر غذائی جزو کی نمایاں ترین خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں:
پروٹین یا لحمیات
یہ غذائی جزو ’’حیواناتی ذرائع‘‘ سے حاصل ہونے والی غذاؤں مثلاً گوشت، انڈے، دودھ، پنیر، دہی، لسی، اور ان سے بنی ہوئی اشیا میں پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ’’نباتاتی ذرائع‘‘ میں اناج، پھلیاں اور دالیں بھی یہ جزو مہیا کرتی ہیں۔ یہ لحمیات جسم کے خلیات، بافتوں اور خامروں کی تعمیر اور نشوونما کے لئے ناگزیر ہوتی ہیں اور ان کی تجدید اور بحالی میں مدد دیتی ہیں۔
کاربوہائیڈریٹس یا نشاستہ دار غذائیں
یہ جزو نباتات کے ذریعے بکثرت حاصل ہوتا ہے۔ تمام نشاستہ دار اور میٹھی غذاؤں کے علاوہ دالوں، اناج، گودے دار سبزیوں اور پھلوں میں آلو، شکرقندی اور آم میں کاربوہائیڈریٹس کی بہتات ہوتی ہے۔ یہ چینی، گنے کے رس اور جام جیلی وغیرہ میں بھی کثیر مقدار میں موجود ہوتا ہے۔ کاربوہائیڈریٹ یا نشاستہ دار غذاؤں کا بنیادی کام ہمارے جسم میں قوت اور حرارت پیدا کرنا ہے جس کے بغیر جسم کسی بھی اندرونی یا بیرونی عمل کی انجام دہی سے قاصر ہوتا ہے۔
روغنیات یا فیٹس
ہماری خوراک میں موجود ہر قسم کی چکنائی روغنیات کے زمرے میں آتی ہیں۔ ہم روغنیات حیوانات سے بھی حاصل کرتے ہیں اور نباتات سے بھی۔ دودھ، گھی، مکھن، بالائی اور چربی حیوانات سے حاصل ہونے والی چکنائیاں ہیں جبکہ مختلف پھلوں، سبزیوں اور بیجوں کے تیل نباتاتی ذرائع سے حاصل ہوتے ہیں۔ ان میں سورج مکھی کا تیل، روغن بادام، روغن کدو، مونگ پھلی کا تیل، مارجرین اور تمام اقسام کے گھی وغیرہ شامل ہیں۔ روغنیات کا اہم ترین کام جسم کو کثیر مقدار میں قوت اور حرارت فراہم کرنا ہے۔ اس کے ایک گرام میں 9 حرارے پائے جاتے ہیں۔ یہ تعداد باقی قوت بخش غذاؤں کے مقابلے میں دوگنی سے بھی زیادہ ہے۔
معدنی نمکیات یامنرلز
یہ حیواناتی اور نباتاتی دونوں ذرائع سے حاصل ہونے والی غذاؤں میں موجود ہوتے ہیں۔ ان میں کیلشیم، فاسفورس، فولاد، سوڈیم اور آیوڈین کے علاوہ بھی بہت سے دیگر نمکیا ت شامل ہیں۔ ان کا بنیادی کام جسم کی تمام تر بافتوں کی تعمیر، ساخت اور نشوونما ہے۔ اس کے علاوہ ہڈیوں اور دانتوں کی ساخت اور نشوونما اور دیگر تمام نظاموں کی باقاعدگی اور برقراری میں بھی نمکیات نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔
وٹامن یا حیاتین
یہ غذائی جزو حیوانات اور نباتات دونوں سے حاصل ہونے والی غذاؤں میں وسیع پیمانے پر موجود ہوتا ہے، جن میں گوشت، دودھ، انڈے، اناج، تازہ، خشک پھل اور مختلف سبزیاں شامل ہیں۔ ان میں بہت سے وٹامن پائے جاتے ہیں۔ کچھ وٹامن مثلاً الف (وٹامن اے)، د (وٹامن ڈی)، ی (وٹامن ای)، ک (وٹامن کے) چکنائی والی غذاؤں میں پائے جاتے ہیں جبکہ تازہ اور خشک غذاؤں مثلاً سبزیوں، پھلوں اور اناج میں حیاتین ج (وٹامن سی) حیاتین ب (وٹامن بی) خاصی مقدار میں موجود ہوتے ہیں۔ ویسے تو ہر وٹامن کی اپنی خصوصیات اور اپنی منفرد افادیت ہوتی ہے لیکن مجموعی طور پر وٹامن ہڈیوں کی تعمیر اور نشوونما سے لے کر نظام دوران خون حتیٰ کہ نظام تنفس تک کی درستی اور باقاعدگی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔