تبصرہ: میر افسر امان
ان قصوں کا تقابلی مطالعہ اللہ کی آخری کتاب قرآن مجید سے موازنہ کرکے صحیح صورتِ حال قارئین کے سامنے پیش کی جاتی تو اس کا کتاب سے قارئین کو کچھ فائدہ ہوتا مگر یہ گمشدہ اسرائیلی روایات کو ویسے کا ویسا ہی پیش کردیا گیا جیسے ان تحریف تبدیل شدہ آسمانی کتابوں میں درج ہے، ہمارے خیال میں عام قارئین کو فائدہ سے زیادہ نقصان کا امکان محسوس ہوتا ہے
ایک ہفتہ قبل ایک صاحب نے مجھے فون پر بتایا کہ میں نے آپ کی کتاب تحریک محنت کے مکتبہ سے لے کر مطالعہ کی ہے، میں آپ سے ملانا چاہتا ہوں، پھر دو دن بعد وہ اور ایک دوسرے صاحب کے ساتھ میرے گھر تشریف لائے۔ ابتدائی تعارف کے بعد مجھے ۰۳۷ صفحات کی ایک کتاب ”عہد دوام“ قصص الانبیاء و الشہداء و الصدیقین و الصالحین، مدیرعلامہ خیرمحمد لکھنوی، ناشرادارہ تعلیم وتحقیق علوم شرقیہ اسلام آباد پیش کی اور ساتھ ہی کہاکہ اس پرآپ کے تبصرے کا انتظار رہے گا، چاہے وہ تین ماہ تک کے وقت میں ہی کیوں نہ ہو۔ اپنے تعارف میں ان صاحبان نے بتایا کہ وہ ادارہ تعلیم وتحقیق علوم شرقیہ سے منسلک ہیں، ان صاحبان کی محنت کو سامنے رکھتے ہوئے ہم نے اپنے دوسری مصرفیات روک کر اس کتاب کا کئی روز مطالعہ کیا۔ حاصل مطالعہ کے کچھ چیدہ چیدہ نقات ادارہ تحقیق علوم شرقیہ اسلام آباد کو ان کے ای میل پتہ پر بھیجنے اور افادہ عام کیلئے حسب عادت اخبارات میں شائع ہونے کیلئے بھی بھیجنے کیلئے تیار کیا۔ اس کتاب میں سر ورق کے مطابق تورات اور زبور میں سے (۶۱) انبیا ؑاور شہدا، صدیقین اور صالحین کا ذکر ہے۔ ویسے میری لائبریری میں پہلے سے ”قصص القرآن“ تالیف مولانا حِفظ الرحمان سیوہارویؒ رفیق اعلیٰ ندوۃ المصنفین دہلی بھارت جس میں انبیاؑ کے متعلق کافی تفصیل موجود ہے۔ قرآن شریف اور اس کتاب کے مطالعہ کے بعد ہم نے کئی صفحات پر مشتمل مضمون بنام ”پیغمبرانؑ خدا کی سیرت اور دعوت“ تحریر کرکے اخبارات میں شائع ہونے کیلئے بھیجا تھا۔ مختلف اخبارات، خصوصاً جناح اخبار میں دینی صفحہ پر تسلسل سے کئی قسطوں میں شائع ہوا، اس کے علاوہ دوسری کتاب ”تذکرہ انبیاء و رُسل ؑ“ تالیف مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی ؒبھی موجود ہے۔ ان دونوں کتابوں میں قرآن شریف میں بیان کردہ انبیاء کی سیرت اور حالات تفصیل سے بیان کئے گئے ہیں۔
کتاب ”عہد دوام“ جس پر آج تبصرہ کرنے جارہا ہوں، اس کتاب کے پیش لفظ میں لکھا ہے کہ ”یہ قصص توریت شریف سے ہوتے ہوئے دور زبور شریف اور پھر حضرت عیسیٰ ؑکے وسیلے سے انجیل شریف تک پوری تاریخ بنی اسرائیل کا احاطہ کرتے ہیں“ اب بنی اسرائیل کی تاریخ تو یہ ہے کہ انہوں نے آسمانی کتابوں میں تحریف کی اور اللہ کے نیک بندوں، نبیوں ؑ پر الزام لکھائے۔ گو کہ ادار ہ تعلیم و تحقیق علوم شرقیہ اسلام آباد نے کہ یہ کام بڑی محنت سے کیا گیا اور تحقیق سمجھ کر کیا گیا ہے مگر ان کتب میں درج بنی اسرائیل کے جھوٹ پر مبنی قصوں کو جوں کا توں بیان کردیا ہے۔ اگر اللہ کی آخری کتاب قرآن شریف اور اللہ کے آخری بنی حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے موازنہ کرکے قرآن میں بیان کردہ حقائق کو بھی بیان کیا جاتا تو قاری کی سمجھ میں آتا کہ کیا غلط اور کیا صحیح ہے مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ اس طرح ہمارے نزدیک اس طرح کی تحقیق سے عوام الناس کو کوئی فائدہ نہیں بلکہ یک طرفہ نقطہ نظر سے الٹا نقصان پہنچانے کا سبب بن سکتا ہے۔
مثلاً قصہ حضرت آدم ؑ میں اس کتاب کے صفحہ ۴ پر بیان کرتے ہیں ”اب قصہ فتنہ اُٹھانے والے کا۔ اژدھا ان تمام جنگلی جانورں کی نسبت عیار تھا جو اللہ تعالیٰ نے بنائے تھے۔ ایک دن اژدھا عورت کے پاس آیا اور طنزیہ اندازمیں مکر کرنے لگا ”بی بی!بھلا یہ کیسا حکم دے ڈالا ہے آپ کے پروردگار نے کہ باغ کے کسی بھی پیڑ کا پھل نہ کھانا“۔ اژدھا نے عورت کو بہکایا: ”قطعاً نہیں! ایسا کچھ بھی نہیں ہوگا بلکہ وہ جانتا ہے کہ جس دن آپ لوگ اسے کھائیں گے، آپ کو بصیرت حاصل ہوجائے گی اور آپ عرش والے کی طرح اپنے لئے خیروشر کا معیار خود مقرر کرنے لگیں گے“ (اس میں اصل عبارت بلکہ پوری کتاب میں رکوع اور آیات کا حوالہ نہیں دیا گیا جو اس وقت موجود ان آسمانی کتب سے تقابلی مطالعہ کیا جاسکتا۔ پوری کتاب”عہددوام“ میں تحریف و تبدل شدہ اسرائیلی روایات، جوں کی توں بیان کردیں گئیں ہیں) قرآن شریف میں حضرت آدمؑ کا قصہ اس طرح بیان ہوا ہے۔ ”اور آدمؑ تم اور تمہاری بیوی بہشت میں رہو اور جہاں سے چاہو نوش کرو مگر اس درخت کے پاس نہ جانا ورنہ گنہگار ہوجاؤ گے۔ تو شیطان دونوں کو بہکانے لگا تاکہ ان کے ستر کی چیزیں جو ان سے پوشیدہ تھیں کھول دے اور کہنے لگا کہ تم کو تمہارے پروردگار نے اس درخت سے صرف اس لئے منع کیا کہ تم فرشتے نہ بن جاؤ یا ہمیشہ جیتے نہ رہو۔ (الاعراف:۹۱۔۰۲)۔ قرآن میں یہ کام شیطان نے کیا مگر کتاب”عہد دوام“ کے مطابق یہ کام اژدھا نے کیا۔ کتاب کے صفحہ ۳۱ میں بیان کرتے ہیں کہ ”طوفان کے بعد حضرت نوحؑ نے کاشتکاری شروع فرما کر انگور کا ایک باغ لگایا۔ ایک دفعہ آپ نے انگور کی کچھ نبید پی لی، نتیجتاً اپنے خیمے کے اندر عالم سرور میں آپ کا ستر کھل گیا۔ (یہ اللہ کے نبی پر بنی اسرائیل کی طرف سے سراسر الزام ہے۔ انبیاؑ تو معصوم ہوتے ہیں، یہ کیسے ممکن ہے۔)
کتاب ”عہد دوام“ کے صفحہ ۴۳ پر بیان کرتے ہیں کہ ”چلتے چلتے اسحاقؑ نے خاموشی توڑی۔ فرمایا: ”کہو بیٹا“ پوچھا: ”ہم لکڑیاں اور کوئلے تو لے آئے مگر جانور کہاں ہیں؟“ آپ ؑ نے جواب دیا ”المدبر خود تدبیر کرے گا میرے بچے۔“ یونہی چلتے چلتے دونوں اوپر چڑھتے گئے اور بلآخر مقررہ جگہ پہنچے۔ وہاں پہنچ کر حضرت ابراہیمؑ نے اوپر تلے پتھر رکھ کر ایک چبوترہ بنایا، لکڑیاں ترتیب سے چبوترے پر چنیں اور اپنے عزیز از جان بیٹے کو رسیوں سے جکڑ کر لکڑیوں پر لٹا دیا۔ لڑکے کو لٹانے کے بعد آپؑ نے چھری اٹھائی اور ذبح کرنے ہی والے تھے کہ عرش معلی سے ایک فرشتے کی آواز آئی ”ابراہیم۔ؑ ابراہیم ؑ۔ عرض کیا ”لبیک!“ فرمایا اپناہاتھ روک لو۔ لڑکے کو ضرر نہ پہنچانا! ثابت ہوگیا کہ تم اپنے رب کے حضور جھکنے والوں میں ہو۔۔۔ (اس تحریر سے تحریف شدہ بائبل میں ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ذبح حضرت اسحاق ؑ ہیں جبکہ قرآن شریف میں ذبح کے اشارے حضرت اسمٰعیل ؑ کی طرف ہیں) ”کتاب عہددوام“ کے سرورق پر سرزمین موریہ میں واقع اس مقام کی تصویر بھی لگا دی جبکہ عرب زمانہ قدیم سے حضرت اسمٰعیل ؑ کی یاد میں مکہ میں منیٰ کے مقام پر قربانی کرتے آئے ہیں۔ پھر جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو آپؐ نے بھی اسی طریقے کو جاری رکھا۔ حتیٰ کہ آج تک حج کے موقع پر ۰۱ ذی الحجہ کو منیٰ میں قربانیاں کی جاتی ہیں۔ اب ذرا بائبل کی تضاد بیانی دیکھیں۔ ”خدا نے ابرھام کو آزمایا اور اُسے کہا: اے ابرھام!۔۔۔ تو اپنے بیٹے اضحاق کو جو تیرا اکلوتا ہے اور جسے تو پیار کرتا ہے ساتھ لے کر موریّاہ کے ملک میں جا اور وہاں اُسے پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ، پر جو میں تجھے بتاؤں گا سوختنی قربانی کے طور پر چڑھا“ (پیدائش۔۲۲: ۱۔۲) اس بیان میں ایک طرف تو یہ کہا جارہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت اسحاق ؑ کی قربانی مانگی، اور دوسری طرف یہ بھی کہاجارہا کہ وہ اکلوتے بیٹے تھے۔ اس لئے ذرا بائبل ہی کی حسب ذیل تصریحات بھی ملا حظہ ہوں جس میں اکلوتا بیٹا حضرت اسمٰعیل ؑثابت ہوتا: جب اس کی بیوی ساری نے اپنی مصری لونڈی اسے دی کہ اس کی بیوی بنے اور وہ حاجرہ کے پاس گئے اور وہ حاملہ ہوئی (پیدائش۔۶۱:۱۔۲)”اور جب ابرام سے حاجرہ کے اسمٰعیل پیدا ہوا تب ابرام چھیاسی برس کا تھا(۶۱۔۶۱)”اور خدا نے ابرام سے کہا کی ساری جو تیری بیوی ہے۔۔۔ اس سے بھی تجھے ایک بیٹا بخشوں گا۔۔۔ تو اس کا نام اضحاق رکھنا۔۔۔ جو اگلے سال اسی قوت متعین پر سارہ سے پیدا ہوگا۔۔۔ تب ابرہام نے اپنے بیٹے اسمٰعیل کو اور۔۔۔ گھر کے سب مردوں کو لیا اور اسی روز خدا کے حکم کے مطابق ان کا ختنہ کیا۔ ابرہام ننانوے برس کا تھا جب اس کا ختنہ ہوا، اور جب اس کے بیٹے اسمٰعیل کا ختنہ ہوا تو وہ تیرہ برس کا تھا“پیدائش(۷۱:۵۱۔۵۲)”اور جب اس کا بیٹا اضحاق اس سے پیدا ہوا تو ابرہام سو برس کا تھا“(پیدائش:۱۲۔۵)۔ اس سے بائبل کی تضاد بیانی صاف کھل جاتی ہے۔ ظاہر ہے ۴۱ سال تک تنہا حضرت اسمٰعیل ؑ ہی حضرت ابراہیم ؑ کے بیٹے تھے۔ اب اگر قربانی اکلوتے بیٹے کی مانگی گئی تھی تو وہ حضرت اسحاقؑ کی نہیں حضرت اسمائیل ؑ کی تھی۔ کیونکہ وہی اکلوتے تھے۔ اور اگر اسحاقؑ کی قربانی مانگی گئی تھی تو پھر یہ کہنا غلط ہے کہ اکلوتے بیٹے کی قربانی مانگی گئی تھی۔(مزیدتشریع کیلئے دیکھیں۔الصفٰت:حاشیہ ۷۶ تفیہم القرآن جلد ۴ سید مودودیؒ)
کتاب کے صفحہ ۵۷۲ پر حضرت داؤد کے بارے میں لکھا کہ”ایک شام آپ محل کی چھت پر اپنے بستر سے اٹھ کر ٹہل رہے تھے کہ آپؑ کی نظرایک حسین و جمیل عورت پر پڑی جو حیض سے فارغ ہو کر نکلی تھی۔ آپؑ نے اسے قاصدبھیج کر بلوایا اور جب وہ آپ ؑ کے پاس آئی دونوں ہم بستر ہوئے۔ اس کے بعد بنت سبع اپنے گھر واپس لوٹ گئی“ (اللہ کے نبی ؑحضرت داؤدؑ سے ایسی حرکت منصوب کرنا ظلم نہیں تو کیا ہے؟)۔ بنی اسرائیل ایسے افعال کرنے کے لئے، بلکہ اپنے گناہوں کے راستے کھولنے کے لئے انبیاؑ پر ایسی الزام تراشی کرتے رہے ہیں۔ ولنٹائن ڈے، جس میں پادری نند سے زنا کرتا ہے اس کی مثال ہے۔ آج مغرب کے معاشرے میں زنا کی وبا عام ہے ان کی اپنی رپورٹس کے مطابق ان کے ہاں چایس فی صد حرامی بچے پیدا ہوتے ہیں۔
اس کتاب کے صفحہ ۴۸۲ پر لکھا ہے کہ ”اس کے کچھ عرصہ بعد یوں ہوا کہ حضرت داؤد ؑکا پہلوٹھا بیٹا امنون اپنی سوتیلی بہن تامار کے حُسن پر نظر رکھنے لگا جو ابی سلام کی ماں بی بی معکہ سے تھیں۔۔۔ جب وہ اسے کھانا کھلانے قریب آئی تو امنون نے انہیں زبردستی پکڑ کر کہا: میرے ساتھ لیٹ جاؤ۔۔۔ چونکہ لڑکی سے زور آور تھا اس لئے ان کے ساتھ جبراً صحبت کی“ (کیا داؤد ؑ کے گھر کا ایسا ماحول ہونے کا کوئی مسلمان خیال کرسکتا ہے؟ اب بھی مغربی معاشرے میں یہ وباء عام ہے)۔
اس کتاب کے صفحہ ۵۵۴ پر لکھا ہے: ”انہوں نے بیت اللہ کے احاطے میں وہ سب پردے اتروا لئے جنہیں عورتوں نے عشتار کی پوجا پاٹھ میں شریک عصمت فرو ش مردوں کی بدکاری چھپانے کے لئے سیئے تھے“ (یعنی بدکاری ان کے مذہبی رسوم میں بھی جاری تھی)۔
اس کتاب کے صفحہ ۷۲۵ پر لکھا ہے کہ ”آپؑ (یعنی حضرت مریم ؑ) کا نکاح آل داؤد سے تعلق رکھنے والے حضرت یوسف نجار ہوچکا تھا“ (جبکہ قرآن شریف میں حضرت عیسیٰ کے بارے میں ہے کہ ”یہ سن کر مریم ؑ بولی: پروردگار میرے ہاں بچہ کہاں سے ہوگا۔ مجھے تو کسی شخص نے ہاتھ تک نہیں لگایا۔“ (ال عمران:۷۴) (کیا یہ بنی اسرائیل کی طرف سے حضرت مر یم ؑ پربہتان نہیں تو کیا ہے)۔
اس کتاب ”عہد دوام“ میں تورات، زبور اور انجیل میں درج اسرائیل قصے جوں کے توں لکھ دیئے گئے ہیں۔ اللہ کی آخری کتاب نے ان تحریف شدہ قصوں کو صحیح طرح بیان کر کے بنی اسرائیل کی طرف سے انبیاؑ پر الزامات کو صاف کیا ہے۔ جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا ہے کہ ان قصوں کا تقابلی مطالعہ اللہ کی آخری کتاب قرآن سے موازنہ کر کے صحیح صورتِ حال قارئین کے سامنے پیش کی جاتی تو اس کا کتاب سے قارئین کو کچھ فائدہ ہوتا۔ مگر یہ گمشدہ اسرائیلی روایات کو ویسے کا ویسا ہی پیش کردیا گیا جیسے ان تحریف تبدیل شدہ آسمانی کتابوں میں درج ہے۔ ہمارے خیال میں عام قارئین کو فائدہ سے زیادہ نقصان کا امکان محسوس ہوتا ہے۔